کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 67
یہ ہے کہ عقل ملتے جلتے مسائل پر ایک ہی حکم کا فیصلہ دیتی ہے اور مختلف مسائل پر مختلف حکموں کا، جبکہ اس کے برعکس شرع اکثر مختلف مسائل پر ایک ہی حکم لگاتی ہے اور مماثلت ومشابہت کے مسائل پر مختلف احکام کا۔ مثلاً شرع سفر پر چار رکعات والی نمازوں میں تقصیر کی رخصت دیتی ہے جبکہ دو یا تین رکعات والی نمازوں کے لئے نہیں۔ یہ منی کو طاہر قرار دیتی ہے مگر مذی کو ناپاک جبکہ دونوں کا انزال ایک ہی جگہ سے ہوتا ہے۔ لیکن یہ منی کے نکلنے پر غسل کو واجب قرار دیتی ہے ناکہ مذی کے نکلنے پر۔ کپڑے پربچی کاپیشاب لگنے پر اسے دھونے کو لازم قرار دیتی ہے جبکہ بچے کے پیشاب لگنے پر اس پر پانی چھڑکنے کو کافی گردانتی ہے۔ یہ مطلقہ کی عدت تین قرو اور بیوہ کی چار ماہ اور دس دن بتاتی ہے، چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتی ہے جبکہ غاصب کے لئے یہ سزا نہیں رکھتی وغیرہ۔ ان تمام مسائل میں مشابہت پائی جاتی ہے، اس کے باوجود ان کے احکام مختلف ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ فقط مماثلت و مشابہت قیاس کے لئے کافی نہیں ہے، بلکہ شرعی علت کا منصوص ہونا لازمی ہے۔ مختلفات کی مثالیں یہ ہیں کہ شرع پانی اور مٹی دونوں کو طہارت کا جواز بناتی ہے جبکہ پانی صاف کرتا ہے اور مٹی گندہ کرتی ہے۔ اسی طرح اس نے مرتد اور زانی محصن، دونوں کے لئے قتل کی سزا رکھی ہے جبکہ ان دونوں عملوں کی کیفیت مختلف ہے۔ شرع نے احرام کی حالت میں شکار میں کسی حیوان یا پرندے کے قتل پر، محرم پر اس کی ضمان کو واجب قرار دیا ہے، خواہ یہ قتل عمداً ہوا ہو یا خطا سے وغیرہ۔ ان مسائل کی حقیقت مختلف ہونے کے باوجود، ان پر شرع ایک ہی حکم لگا رہی ہے جو کہ دوبارہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ شرع میں عقلی قیاس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، بلکہ اس کا استعمال ناجائز ہے اور صرف شرعی قیاس ایک دلیل و ماخذ ہے۔ اسی لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ’’ اگر دین رائے پر موقوف ہوتا تو موزوں پر مسح اوپر کے بجائے نچلے حصے پر کیا جاتا۔ ‘‘
مثال کے طور پر یہ کہا گیا ہے کہ اجرت پر وکالت(عقدِ جائزہ) کو اجارۃ)عقدِ لازمہ) پر قیاس کیا گیا ہے کیونکہ دونوں میں ملازمت پر رکھنے کی مماثلت و مشابہت موجود ہے، اس لئے اجرت پر وکالت کا معاملہ بھی عقدِ لازمہ ٹھہرا۔ یہ کہنا غلط ہو گا کیونکہ یہاں ان دونوں عقود میں مشابہت کی وجہ سے قیاس نہیں کیا گیا بلکہ ان دونوں کے مابین حکم کے باعث کے اشتراک کی وجہ سے۔ یہ علت اجرت ہے جو دونوں عقود میں مشترک ہے اور اسی وکالت کو اجارۃ( کرایہ داری) پر قیاس کیا گیا ہے۔ چنانچہ جب اجیر کی طرف سے کوئی کام انجام پایا اور اس کے عوض میں مستاجر نے اسے متعین اجرت دینے کا التزام اپنے سر لیا، تو یہ عقدِ لازمہ قرار پایا۔ لہذا یہ اجرت وہ حکم کا باعث ہے جو دونوں عقود میں موجود ہے، اسی لئے یہ شرعی قیاس ہے نہ کہ عقلی قیاس۔ البتہ اگر وکالت بغیر اجرت کے کی گئی، تو اسے اجارۃ پر قیاس