کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 66
جہاں تک قیاس کی دلیل کا تعلق ہے تو جیسا کہ تعریف سے ظاہر ہے، قیاس تب ممکن ہے جب حکمِ شرعی کی علت نص میں موجود ہو۔ چنانچہ قیاس بذاتِ خود نص کی طرف واپس لوٹتا ہے۔ اس لئے اگر شارع نے نص میں علت رکھی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شارع نے قیاس کو دلیل قرار دیا ہے بشرطیکہ اس کے دلائل قطعی ہوں۔ چونکہ علت قرآن، سنت اور اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں وارد ہوئی ہے اور یہ تمام دلائل قطعی ہیں، اس لئے قیاس بذاتِ خود ایک قطعی دلیل ہے۔ جب شارع نے حکم بتانے پر اکتفاء نہیں کیا مگر اس حکم کے باعث کو نص میں ظاہر کیا ہے، تو شارع کا قصد اس باعث کو پورا کرنا ہے نہ فقط حکم کو بجا لانا، یعنی مقصود باعث کا لحاظ رکھنا ہے کیونکہ معلول علت کے گرد گھومتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں قرآن، سنت اور اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کے (کئی) نصوص بذاتِ خود حکم کے باعث پر دلالت کر رہے ہیں اور چونکہ یہ سب قطعی ہیں اس لئے قیاس بھی ایک قطعی شرعی دلیل و ماخذ ٹھہرا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالوگوں کو قیاس کا استعمال سکھانا ثابت ہے، مثلاً ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ’’ان امی ماتت و علیھا صوم نذر أفأصوم عنھا ؟ قال : أراأیت لو کان علی أمک دین فقضیتیہ أکان یؤدی ذلک عنھا ؟ قالت: نعم، قال: فصومی عن أمک ‘‘(مسلم) (میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس نے روزہ رکھنے کی منت مانگی تھی، کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھ سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم دیکھتی نہیں کہ اگر تمہاری ماں نے کوئی قرض لیا ہوتا تو کیا اس کی طرف سے تم اسے نہ لوٹاتی ؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنی ماں کی طرف سے روزہ رکھ لو) اسی طرح قیاس کا استعمال اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت ہے۔ یاد رہے کہ صرف شرعی قیاس کا اعتبار کیا جائے گا، دوسرے لفظوں میں یہ لازمی ہے کہ علت کسی معین شرعی نص میں وارد ہو یعنی یہ شرعی علت ہو، صرف اسی صورت میں قیاس معتبر ہو گا کیونکہ یہی قیاسِ شرعی ہے۔ جہاں تک عقلی قیاس کا تعلق ہے یعنی عقل نے، بغیر معین شرعی نص کے، مجموعی طور پر شرع کی کوئی علت ڈھونڈی ہو یا بغیر حکم کے باعث(علت) میں اشتراک کے، فقط مسائل کی مماثلت اور مشابہت کی وجہ سے، ان پر ایک ہی حکم صادر کیا ہو، تو اس کی شرع میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں عقلی علت کا استعمال جائز نہیں۔ اس کی وجہ