کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 65
اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی مثالیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کبار صحابہ رضی اللہ عنہم سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف تشریف لے گئے اور خلیفہ کے تقرر میں تین دن مصروف رہے، باوجود کہ میت کی تدفین واجب ہے۔ چونکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا کسی ناجائز فعل پر جمع ہونا ناممکن ہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین سے قبل خلیفہ کا تقرر، ان کے اجماع پر دلالت کر رہا ہے۔
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت کے لئے چھ ایسے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نامزد کیا جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ انہیں یہ حکم دیا کہ تین دن کے اندر جب یہ لوگ کسی ایک شخص کی بیعت پر متفق ہو جائیں، پھر اگر ان میں سے کوئی صحابی رضی اللہ عنہ اس سے تنازع کرے، تو اس کی گردن اڑا دو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے سکوت اختیار کیا۔ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا حرام ہے، البتہ ان کا مرتبہ عام مسلمانوں سے بلند ہونے کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس قتل کے حکم پر خاموش رہے، یہ واقع ان کے اجماع سکوتی کی دلیل ہے۔ لہذ ا ان دونوں واقعات سے تین دن کے اندر خلیفہ کے تقرر کا وجوب اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہوا۔
نیز اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ قاعدہ لیا گیا ہے : أمر الإمام یرفع الخلاف (امام کا حکم اختلاف کو ختم کرتا ہے)۔ یعنی صرف خلیفہ ہی احکام و قوانین کی تبنی کا اختیار رکھتا ہے، نہ کوئی اور مثلاً مجلسِ امت( مجلسِ شوریٰ)۔
قیاس
قیاس کی تعریف
ھو إلحاق أمر بآخر فی الحکم الشرعی لإتحاد بینھما فی العلۃ
( علت کے اتحاد کی وجہ سے، حکمِ شرعی میں، ایک امر کو دوسرے سے ملحق کرنا)۔ دوسرے لفظوں میں حکم شرعی کے باعث میں اتحاد کی وجہ سے ان دونوں مسائل کو آپس میں ملحق کرنا۔