کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 64
یہ آیت اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کسی غلطی پر جمع نہیں ہو سکتے اور یہ امر ان کے اجماع کی قطعی شرعی دلیل ہے۔ اگر ان کے خطا پر اکٹھے ہونے کو مان لیا جائے تو پورے دین میں غلطی کے امکان کو ماننا لازم آئے گا، اور یہ امر ناممکن ہے بدلیل مذکورہ۔ انہی سے ہم نے اپنا دین لیا ہے اور اسی کی بنیاد پر یومِ قیامت میں سب کا حساب ہو گا۔ یاد رہے کہ اجماع سے مراد ان کی ذاتی رائے پر اتفاق نہیں ہے، بلکہ یہ ایسی شرعی دلیل(سنت) کو منکشف کرنا ہے جس کا حکم ان سے بلا دلیل مروی ہو۔ اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعریف ھو الإجماع علی حکم من الأحکام بأنہ حکم شرعی (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کسی حکم کے بارے میں یہ اجماع کہ وہ حکمِ شرعی ہے ) اجماعِ سکوتی بھی ایک دلیل ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ جب بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے ایک حکمِ شرعی مذکور ہو، تو باقی اس پر سکوت اختیار کریں کیونکہ کسی خطا پر ان کا اجماع ناممکن ہے بدلیل مذکورہ۔ اجماع سکوتی تب معتبر ہو گا جب یہ تین شرائط پوری ہوں : 1) حکمِ شرعی وہ ہے جس کا عادۃً انکار کیا جائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پر سکوت نہ اختیار کیا ہو۔ 2) صحابہ رضی اللہ عنہم تک کسی واقع کی اطلاع پہنچے اور انہوں نے اسے سنا اور اس پر سکوت اختیار کیا۔ اگر انہوں نے نہیں سنا تو یہ معتبر نہیں ہو گا۔ 3) یہ سکوت خلیفہ کے اس تصرف کے بارے میں نہ ہو جو وہ اپنی رائے و اجتہاد کے مطابق کرتا ہے۔ مثلاً ریاستی ملکیت کے اموال کا تصرف۔ اس صورت میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے سکوت کو اجماع نہیں بلکہ خلیفہ کی اطاعت سمجھا جائے گا۔