کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 63
یہ ہے کہ اجماع کی مذکورہ تعریف یہ تقاضا کرتی ہے کہ یہ اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم تک ہی محدود ہو۔ جہاں تک اجماعِ صحابہ کے دلائل کا تعلق ہے، تو وہ یہ ہیں : ﴿ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴾ 9:100 (اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے گروہ کی مدح فرمائی ہے اور یہ مدح بغیر کسی قید و تخصیص کے ہے جو کہ ان کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ یہاں یہ نہ کہا جائے کہ آیت میں تابعین کی بھی مدح ہے، لہذا ان کا اجماع بھی حجت ٹھہرا۔ یہ اس لئے کیونکہ ان کی مدح مطلق نہیں بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اتباع سے مقید ہے، مطلق مدح فقط صحابہ کرام کے لئے ہے، چنانچہ یہ اصل ٹھہری۔ یہاں یہ بھی نہیں جا سکتا کہ جب سب صحابہ کی تعریف کی گئی ہے، تو انفرادی طور پر ہر صحابی رضی اللہ عنہ بھی اس کے لائق ٹھہرے یعنی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا قول بھی شرعی دلیل ہے۔ یہ اس لئے کیونکہ یہاں صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک گروہ کی حیثیت سے مدح پائی گئی ہے نہ کہ انفرادی حیثیت سے کیونکہ﴿ اتَّبَعُوهُم﴾ صیغۂ جمع کی ضمیر کے ساتھ وارد ہوا ہے نہ کہ واحد کی ضمیر کے ساتھ۔ ﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴾15:9 (ہم نے یہ قرآن نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں) یہ آیت بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع کی صداقت پر دلالت کر رہی ہے کیونکہ عملی طور پر انہی کی جمع، نقل اور حفاظت سے قرآن ہم تک قطعی طریق سے پہنچا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ﴾41:42 (باطل اس کو نہ آگے سے چھو سکتا ہے نہ پیچھے سے)