کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 62
اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجماع کی تعریف ھو الاتفاق علی حکم واقعۃ من الوقائع بأنہ حکم شرعی (کسی واقع کے حکم کے بارے میں یہ اتفاق کہ وہ حکمِ شرعی ہے ) اجماع سے مقصود حکمِ شرعی کو ظاہر کرنا ہے اور اس کا ظہور ہمیشہ دلیلِ شرعی سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ شرعی دلیل یا تو قرآن ہے یا سنت اور صرف یہی وحی ہے، ان کے علاوہ اور کچھ بھی وحی نہیں۔ چونکہ شرعی دلیل فقط وحی ہو سکتی ہے، اس لئے وہی اجماع معتبر ہو سکتا ہے جس سے کسی شرعی دلیل کا انکشاف ہو یعنی وحی کا انکشاف۔ البتہ چونکہ پورا قرآن وحی متلو محفوظ ہے، اس لئے یہ گنجائش فقط سنت میں باقی رہ جاتی ہے۔ لہذا اجماع سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور اقرار یعنی سنت سے کسی ایسی شرعی دلیل کا انکشاف ہے، جو حدیث کی شکل میں ہم تک نہیں پہنچی مگر اجماع کی شکل میں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کن لوگوں کے اجماع سے یہ امر ممکن ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ امر فقط صحابہ رضی اللہ عنہم کے لئے ممکن ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کچھ دیکھا یا سنا ہو اور اس شرعی دلیل کو اپنے اجماع کی شکل میں نقل کیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہوا ہے، ان کے بعد کی نسلوں کو یہ مسرت نصیب نہیں ہوئی۔ اس لئے ان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی شرعی دلیل کو نقل کرنا محال ہے اور ان کا اجماع کوئی شرعی دلیل منکشف نہیں کرتا، لہذا اس کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ فقط صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع شرعی دلیل یعنی شرعی ماخذ ہونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں اجماع سے مراد شرعی دلیل کا صحابہ رضی اللہ عنہم کو معلوم ہونا ہے، نہ کہ اس کا لفظاً روایت کرنا۔ یعنی ان سب کو یہ معلوم ہونا کہ یہ دلیل سنت میں سے ہے۔ حاصل