کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 60
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں نضر اللّٰہ عبدا کہا ہے نہ کہ عبیدا یعنی صیغۂ واحد کا استعمال فرمایا نہ کہ صیغۂ جمع کا۔ یہاں ایک شخص کا حدیث آگے بیان کرنے پر مدح پائی گئی ہے جس سے خبر واحد کی تصدیق ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو نقل کرنے کا حکم اس بات کا بھی حکم ہے کہ اسے قبول کیا جائے، ورنہ وہ بے اثر ہو گی۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ بادشاہوں کو اسلام کی دعوت کے لئے، ایک ایک سفیر بھیجا۔ اگر بادشاہوں پر اسلام کی دعوت قبول کرنا فرض نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خبرِ واحد پر اکتفاء نہ فرماتے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قاضیوں اور والیوں کی طرف ایک ایک پیامبر بھجتے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بجا لاتے، اگر خبر واحد پر عمل لازم نہ ہوتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔ اس بات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی اجماع ہے اور انہوں نے کبھی کسی حدیث کو اس وجہ سے رد نہیں کیا کیونکہ وہ خبرِ واحد تھی، بلکہ صرف اس وجہ سے کہ وہ قابلِ اعتماد نہ ہوتی۔ ان تمام دلائل سے یہ ثابت ہے کہ احکامِ شرعیہ میں خبرِ واحد پر عمل واجب ہے اور اس کو ترک کرنا گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کی تین اقسام ہیں : افعالِ خاص۔ یہ وہ افعال ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہیں۔ مثلاً ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتوں کے ساتھ نکاح۔ ان افعال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ناجائز ہے۔ افعالِ جبلّی۔ یہ وہ افعال ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فطری طور پر کیا کرتے تھے) جیسا کہ انسان کا چلنے، بیٹھنے، بولنے وغیرہ کا انداز)۔ مثلاً جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے مڑ کر دیکھتے تو اپنے دھڑ سمیت گھوما کرتے۔ ان افعال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی بنیادی طور پر مباح ہے۔ افعالِ عام۔ ان میں مسلمان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴾33:21 (یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے روزسے امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے)