کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 59
(وہ جس کا صاحبِ تخریج معروف ہو اور جس کے راوی مشہور ہوں اور یہ زیادہ تر موضوعِ بحث ہو اور وہ جس کو اکثر علماء قبول کریں اور اس کا استعمال فقہاء میں عام ہو)
حدیث ضعیف کی تعریف
ہو کل حدیث لم تجتمع فیہ صفات الحدیث الصحیح ولا صفات الحدیث الحسن
(ہر وہ حدیث جس میں حدیث صحیح و حسن کی صفات نہ پائی جاتی ہوں)
حدیثِ احد( خبر واحد) احکامِ شرعیہ میں حجت ہے اور اس پر عمل واجب ہے بشرطیکہ غالب گمان ہو کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی منقول ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی کسی فعل کو سرانجام دیا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی فعل یا قول پر سکوت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا سکوت ہے۔ دوسرے لفظوں میں جب یہ حدیث صحیح یا حسن ہو، تو خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہویا معاملات سے یا پھر عقوبات سے، یہ واجب العمل ہو گی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شرع نے دعویٰ کے اثبات کے لئے، خبرِ واحد کی گواہی کو قبول کیا ہے، جیسا کہ قرآنی نصوص سے ثابت ہے۔ مالی مسائل میں دو مردوں کی یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی مقبول ہے، زنا میں چار مردوں کی گواہی اور قصاص میں دو کی۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک شخص کی گواہی اور صاحبِ حق کی قسم کھانے پر فیصلہ کرنا ثابت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رضاعت میں ایک عورت کی گواہی کو قبول فرمایا۔ یہ تمام اخبار آحاد ہیں، لہذا شرع نے انہیں شہادت میں قبول کیا ہے۔ شہادت میں خبر واحد کی قبولیت کو حدیثِ احد کی روایت کی قبولیت پر قیاس کیا جائے گا کیونکہ دونوں، گواہ یا راوی، کسی واقع کی خبر دے رہے ہیں۔ چنانچہ حدیثِ احد مقبول ہے بشرطیکہ راوی مسلمان، بالغ، عاقل، عادل، صادق اور ضابط ہو جس وقت اس نے حدیث کی ادائیگی کی۔ جب تک راویوں کی طرف سے کوئی جھوٹ ثابت نہیں ہوتا تو ان کے صدق کی ترجیح لازم ہو گی۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
’’ نضر اللّٰہ عبدا سمع مقالتی فوعاھا عنی وأداھا فرب حامل فقہ غیر فقیہ ورب حامل فقہ إلی من ھو أفقہ منہ ‘‘(ابن ماجہ)
(اللہ اس بندے کا چہرا روشن کرے جس نے میرا قول سنا اور اسے سمجھا اور اسے آگے پہنچایا،اکثر یہ ہوتا ہے کہ کوئی فقہ کا حامل ہوتا ہے مگر فقیہ نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ کوئی فقہ کا حامل اسے جس کی طرف آگے پہنچاتا ہے وہ اس سے بھی زیادہ فقہ کا حامل ہوتا ہے)