کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 5
ہے وہاں اسلام ہے ‘‘ اور ’’ اسلام لچکدار("flexible") ہے وغیرہ۔ یوں اسلام کو حالات کے مطابق ڈھالا جانے لگا اور اس واہی عمل کو ’’اجتہاد ‘‘ سے تعبیر کیا گیا۔ اور مغربی فلسفے سے متاثر ہو کر اسلام کے تشریعی فکر یعنی علمِ اصولِ فقہ کی بگاڑ کو، حکومتی سطح پر فروغ دیا جانے لگا اور ایسے اقدامات کو آج بھی استعمار کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اصولِ فقہ پر یہ حملہ اتفاقی نہ تھا بلکہ اسے بڑے منصوبے کے تحت بجا لایا گیا۔ یہ اس لیے کیونکہ اصولِ فقہ وہ علم ہے جس کے ذریعے مجتہد، قرآن و سنت(اسلامی نصوص) سے زندگی کے) نئے) مسائل کے معالجات یعنی احکام، مستنبط کرتا ہے، جن کے مطابق مسلمان اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ لہذا اگر اسلام کی تشریعی اساس میں ہی مغربی فلسفے سے ہم آہنگ اصول گھڑ کر، اس میں بگاڑ پیدا کر دیا جائے، تو خود بخود تمام جزئیات پر اثر پڑے گا۔ دوسرے لفظوں میں اگر مغربی افکار کو اصولِ فقہ میں ملا دیا جائے، تو مسائل کے حل بھی عین مغربی فلسفے کے مطابق نکلیں گے اور یوں ہر کفریہ فکر و قانون کو اسلام کا لبادہ پہنانا آسان ہو جائے گا۔ نیز اس لیے بھی تاکہ اس کے نتیجے میں آئندہ نسلیں مکمل مغربی ذہنیت کی پیدا ہوں۔ آج ہمارے ممالک میں یہی ہو رہا ہے۔ انہی غیر اسلامی اصولوں کی بنیاد پر آج کئی علماء و مشائخ، ہمارے حکمرانوں کی مدد سے، اسلام کی غلط تاویلوں اور فتووں کے ذریعے مغربی استعمار کے مفاد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ خواہ وہ ’’ دہشت گردی کے خلاف جنگ ("war on terror") کی آڑ میں ہو، مسلمانوں کے خلاف کفار سے اتحاد کے جواز پیش کرنے کی شکل میں ہو، یا پھر ’’ملک کی معیشت کو پروان چڑھانے ‘‘ کی آڑ میں اس آزاد تجارت( Free Trade) کو جائز قرار دینے کی شکل میں ہو، جس کے ذریعے استعماری قوتیں ہمارے ممالک کی معیشت اور سیاست کو کنٹرول کرتی ہیں، انتہا پسندی کے خاتمے یا پھر ملک کے قومی مفاد(national interest) کی آڑ میں امت سے غداری کی شکل میں۔ چونکہ ان غیر اسلامی امور کو اسلامی اصولوں اور اصطلاحات سے تعبیر کرنے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے، مثلاً’’ مصلحت‘‘ یا ’’حکمت ‘‘وغیرہ، اس لیے بعض مسلمان اس کا نشانہ بن کر، ان کی حمایت پر اتر آتے ہیں۔ امت تبھی ان چالوں سے محفوظ رہ سکتی جب وہ اسلامی اصولوں اور کفریہ اصولوں کے مابین فرق کو گہرائی سے سمجھے تاکہ یہ مغربی فکر کے اثر سے بچ سکے اور خالص وحیِ الٰہی کی بنیاد پر اپنی زندگی کے تمام معاملات کو استوار کر سکے۔ یہ امر اس کا مقتضی ہے کہ امت اسلام کی تشریعی اساس یعنی اصولِ فقہ سے واقف ہو اور اس کے اہم ترین قواعد کو اپنے اندر راسخ کرے۔ نیز امت کو موجودہ غیر اسلامی معاشرے سے ایک اسلامی معاشرے کی طرف منتقل کرنا، اس بات پر منحصر ہے کہ زندگی کے بارے میں اسلام کے اہم ترین افکار و پیمانوں کے بیج کو، کس حد تک بونے میں کامیابی حاصل