کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 49
قرآن
قرآن کی تعریف
ھو کلام اللّٰہ المنزل علی رسولہ محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم بواسطۃ الوحی جبریل علیہ السلام ، لفظا و معنی، المعجز، المتعبد بتلاوتہ و المنقول لنا نقلا متواترا
(وہ کلام اللہ، جو الفاظ اور معنی میں، اس نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، جبریل علیہ السلام کے ذریعے نازل کیا، جو معجزہ ہے اور جس کی تلاوت کے ذریعے عبادت ہوتی ہے اور(یہ) ہم تک تواتر سے منقول ہے)
قرآنِ پاک کا کلام اللہ ہونا عقل سے ثابت ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو تحدّی کی ہے کہ وہ اس جیسی ایک سورت پیش کر دیں، مگر انسان اس سے قاصر رہا ہے۔ اگرچہ یہ تحدّی قیامت تک باقی رہے گی، مگر جو لوگ لغت کے مہرین تھے یعنی اس دور کے عرب قبائل، بالخصوص قریش، وہ اس جیسے بلند معیار کا کلام نہیں لا سکے تو یہ محال ہے کہ ان کے بعد کسی کے لئے یہ ممکن ہو۔ یہ تحدّی قرآن کی فصاحت و بلاغت اور اسلوب و نظم کے اعتبار سے کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾2:23
(اگر تمہیں اس میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور بلا لو اپنی مدد کے لئے سب کو سوائے اللہ کے، اگر تم سچے ہو)
قریش سر توڑ کوشش کے باوجود، اس معیار کا کلام پیش کرنے سے عاجز رہے جو کہ تواتر سے ثابت ہے۔ علاوہ ازیں اس کے بعد بھی اس تحدّی کا معارضہ پیش کرنے کی کوششیں جاری رہیں، مگر سب ناکام۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آیت یا سورت کی تلاوت فرماتے تو فوراً حدیث بھی کہتے۔ جب ہم قرآن اور حدیث(متواتر) کا موازنہ کرتے ہیں تو ان میں کوئی مشابہت نہیں پاتے۔ انسان اپنے اسلوب کو جتنا چاہے بدلنے کی کوشش کرے مگر تھوڑی بہت مشابہت ہمیشہ رہے گی، جبکہ قرآن اور حدیث میں ایسی کوئی مشابہت نہیں پائی جاتی۔ یہ تمام باتیں قرآن کے معجزہ ہونے کے