کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 48
اصول میں قطعی دلائل کا وجوب
شرعی دلائل احکامِ شرعیہ کے اصول ہیں، اس لئے، اصولِ دین)عقیدہ) کی طرح، ان کا بھی قطعی ہونا واجب ہے۔ یہ اس لئے کیونکہ شریعت کے اصول، خواہ وہ اصولِ دین میں سے ہوں یا اصولِ احکام میں سے، ان میں ظن ناجائز ہے۔ چنانچہ اس میں کسی ظنی دلیل کا اعتبار ہرگز نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ان کی دلیل صرف قطعی ہو سکتی ہے۔ یہ اس لئے تاکہ اس بات کا یقین ہو کہ جن مآخذ کے ذریعے ہم نے اللہ کی عبادت کرنی ہے، وہ قطعی طور پر اللہ کی جانب سے ہیں یعنی وحی۔ اگر اصول میں ظن کی اجازت ہو، تو اس کی بدولت اصولِ دین میں ہی اختلاف کا احتمال ہو گا اور یہ باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ﴾17:36
(اس بات کی پیروی مت کرو جس کا تمہیں علم نہیں )
﴿ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ﴾10:36
(ان میں سے اکثر ظن کی پیروی کرتے ہیں بے شک ظن حق کے سامنے کچھ مددگار نہیں)
پس شرعی دلائل یعنی شرعی مآخذ فقط چار ہیں کیونکہ صرف ان کے دلائل قطعی ہیں، یعنی یہی قطعی طور پر وحی ہیں اور وہ ترتیب کے لحاظ سے یہ ہیں : قرآن، سنت، اجماعِ صحابہ اور قیاس۔