کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 45
قاعدہ کلیہ کی پہلی مثال : الوسیلۃ إلی الحرام حرام(حرام کا وسیلہ بھی حرام ہے)۔ یہ قاعدہ اس آیت سے مستنبط کیا گیا ہے :
﴿ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾6:108
(اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑکر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ براہ جہل حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کو گالی دیں گے)
یہاں اللہ تعالیٰ نے کفر کے بتوں کو گالی دینے سے منع کیا ہے ﴿ وَلَا تَسُبُّوا ﴾ اور آیت میں نہی جازم کا قرینہ یہ سبب بتایا گیا ہے ﴿ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ ﴾ یعنی کافروں کا اللہ تعالیٰ کو گالی دینا جو کہ حرام ہے۔ یہاں ’’فاء‘‘ سببیت کے لئے ہے یعنی یہ تحریم کی علت ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے بتوں کو گالی دینا اگر اللہ تعالیٰ کو گالی دینے تک پہنچائے )سبب)، تو ان کے بتوں کو گالی دینا حرام ہو گا، اگرچہ اصولی طور پر یہ مباح ہے۔ یعنی ان کے بتوں کو گالی دینے سے منع کرنے کی وجہ، اللہ تعالی کو گالی دینا ہے۔ چنانچہ یہیں سے یہ قاعدہ کلیہ الوسیلۃ إلی الحرام حرام سمجھا گیا ہے، کہ اگر کوئی فعل اصلاً مباح ہو مگر اس کا کرنا، غالب گمان(غلبۃ الظن) سے، کسی حرام تک پہنچائے یعنی اس کا وسیلہ بنے، تو وہ فعل بھی حرام ہو جائے گا۔
مثال : اسلامی ریاست میں خلیفہ ہی کو قاضی المظالم کو مقرر کرنے اور اسے معزول کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ التبہ جب، کسی شرعی شرط پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے، خلیفہ کی معزولی پر قاضی المظالم غور و فکر کر رہا ہو، تو اگر ایسی صورت میں اسے معزول کرنے کا اختیار خلیفہ کے پاس باقی رہے، تو غالب گمان یہ ہو گا کہ اس کی معزولی سے پہلے ہی خلیفہ اس قاضی کو اپنے منصب سے ہٹا دے گا اور یہ حکمِ شرعی کو زائل کرنا ہے۔ چنانچہ اس صورت پر قاعدہِ الوسیلۃ إلی الحرام حرام کا اطلاق ہو گا اور اس لئے یہ اختیار محکمۂ مظالم کو دے دیا جائے گا۔
قاعدہ کلیہ کی دوسری مثال : ما لا یتم الواجب إلا بہ فھو واجب(جس عمل کے بغیر کوئی فرض پورا نہیں ہوتا تو وہ بھی فرض ہے)۔ یہ قاعدہ اس آیت سے سمجھا گیا ہے :
﴿ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ ﴾5:6
(اپنے منہ کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو)