کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 44
قاعدہ کلیہ قاعدہ کلیہ کی تعریف: ھی الحکم الکلی المنطبق علی(جمیع) جزئیاتہ(وہ کلی حکم جو اپنی(تمام) جزئیات سے مطابقت رکھے) حکمِ شرعی اگر کسی خاص لفظ کی طرف منسوب ہو تو وہ حکم خاص ہو گا، اگر یہ کسی عام لفظ کی طرف منسوب ہو تو وہ حکم عام ہو گا اور اگر حکمِ شرعی کی نسبت کسی کلی لفظ کی طرف ہو تو وہ حکم کلی(قاعدہ کلیہ) ہو گا۔ چونکہ قاعدہ کلیہ حکم شرعی ہے، اس لئے یہ ظنی نص)یا نصوص) سے بھی اخذ کیا جا سکتا ہے جیسے دیگر احکام۔ شرعی تعریفات بھی اسی زمرے میں داخل ہیں۔ لفظِ خاص کی تعریف: ھو کل لفظ مفرد أو مرکب لا یندرج تحتہ سواہ(ہر وہ مفرد یا مرکب لفظ جس میں اس کے سوا کوئی شامل نہ ہو) مثال کے طور پر ’ ’زید‘ ‘ایک خاص مرد کا اسمِ علم ہے، ’’ زیتونۃ ‘‘ خاص قسم کے درخت یعنی زیتون کے درخت کا اسمِ علم ہے وغیرہ۔ لفظِ عام کی تعریف: ہو کل لفظ مفرد یندرج تحتہ أفراد(ہر وہ مفرد لفظ جس میں افراد شامل ہوں) مثال کے طور پر السارق، المیتۃ، الربا، الرجال و المسلمون۔ یہ سارے الفاظ عام ہیں اور اپنے افراد کو شامل ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ ﴾میں لفظ المیتۃ میں ہر قسم کا مردار شامل ہے خواہ وہ چوٹ سے مرا ہو یا اس کا گلا گھونٹنے سے یا گولی سے، خواہ وہ مردار کھایا جاتا ہو جیسے بکرہ، یا نہ کھایا جاتا ہو جیسے شیر وغیرہ۔ چونکہ یہ تمام اس لفظِ عام میں شامل ہیں اس لئے یہ حرمت کے حکمِ عام میں داخل ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ سے ہر قسم کے سود کا حرام ہونا ثابت ہے۔ لفظِ کلی کی تعریف : ھو کل لفظ مرکب یندرج تحتہ جزئیات(ہر وہ مرکب لفظ جس میں جزئیات شامل ہوں)