کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 42
عزیمت اور رخصت عزیمت کی تعریف: ما شرع من الأحکام تشریعا عاما و ألزم بالعمل بہ(احکامِ شرعیہ میں سے جس کی تشریع عام ہے اور جس پر عمل کرنا لازم ہے) رخصت کی تعریف: ما شرع من الأحکام تخفیفا للعزیمۃ لعذر مع بقاء حکم العزیمۃ و لکن بغیر إلزام للعباد بالعمل بہ (احکامِ شرعیہ میں سے جس کی تشریع میں کسی عذر کی وجہ سے عزیمت میں تخفیف پائی جائے، بغیر بندے کے لئے ا س پر عمل کے لازم ہونے کے، عزیمت کا حکم باقی رہے) رخصت چونکہ خطابِ وضع میں سے ہے جو بندے کے افعال سے متعلق شارع کا خطاب ہے، اس لئے اس کی کوئی شرعی دلیل ہونا لازمی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس عذر کا ذکر شرعی نصوص میں ہونا ضروری ہے۔ مثال : ﴿ لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ ﴾ (نابینا،لنگڑے اور مریض کا جہاد سے گھر رہنے پر کوئی حرج نہیں) آیت میں اندھا پن، اپاہجی اور مرض کو جہاد میں جانے کے لئے عذر قرار دیا گیا ہے۔ لہذا یہاں جہاد کی عزیمت یعنی عام حکم کی رخصت کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح روزہ رکھنا عزیمت ہے اور سفر میں روزہ نہ رکھنا رخصت ہے، وضو میں خاص اعضاء کو دھونا عزیمت ہے جبکہ زخم پر مسح کرنا رخصت ہے اور نمازوں کو اپنے اپنے اوقات میں ادا کرنا عزیمت ہے جبکہ سفر یا بارش میں انہیں )ظہر و عصر کو اور مغرب و عشاء کو) جمع کرنا رخصت ہے۔ البتہ ان تمام عذرات کے باوجود عزیمت کا حکم برقرار رہے گا اور اسی پر عمل کرنا افضل ہو گا، جب تک اس کے برعکس کوئی دلیل نہ ہو۔ یہ اس لئے کیونکہ رخصت مباح ہوا کرتی ہے، نہ کہ مندوب یا فرض۔ یہاں یہ نہ کہا جائے کہ اگر ہلاک ہونے کا خوف ہو تو سور کا گوشت کھا نا فرض ہو جائے گا کیونکہ اپنے آپ کو ہلاک کرنا حرام ہے، لہذا اس صورت میں رخصت فرض ٹھہری۔ یہ اس لئے نہ کہا جائے کیونکہ ہلاکت کے خوف سے سور کا گوشت حرام ہی رہے گا، ہاں اگر اسے نہ