کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 41
مثال کے طور پر اگر نماز کو اس کے ارکان اور شرائط کے ساتھ ادا نہیں کیا گیا، تو یہ نماز باطل ہو گی اور اس وقت تک اس کا ذمہ باقی رہے گا، جب تک اس کی صحیح ادائیگی نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر بیع کو اس کے ارکان کے ساتھ ادا نہیں کیا گیا تو یہ بیع باطل ہو گا، نتیجتاً اس چیز کا مالک نہیں بنا گیا اور اس لئے اس سے نفع اٹھانا اور اس کا تصرف حرام ہو گا اور آخرت میں وہ سزا کا مستحق ہو گا۔ مثلاً بیع الملاقیح ( بلا اطلاع) حاملہ جانور کی فروخت) اپنی اساس میں ہی باطل ہے کیونکہ یہ اپنی اصل میں ممنوع ہے۔ پس یہ بیع معقود علیہ کی اصل میں مجھول ہے یعنی یہ بیعِ غر ر ہے۔
فساد کی تعریف: ھو یختلف عن البطلان لأن البطلان عدم موافقۃ أمر الشرع من حیث أصلہ أی أن الخلل فی أرکانہ أو ما ھو حکمھا أو أن الشرط الذی لم یستوفہ مخل بأصل الفعل، بخلاف الفساد فإنہ فی أصلہ موافق لأمر الشرع و لکن وصفہ غیر المخل بالأصل ھو المخالف لأمر الشارع و لذلک یزول الفساد بإزالۃ سببہ
( وہ جو بطلان سے مختلف ہے کیونکہ بطلان اپنی اصل کے اعتبار سے شرع کے حکم کے موافق نہیں ہے یعنی اس کے ارکان میں خلل ہے یا اس میں جو اس کے حکم میں ہے، یا وہ شرط جس کے بغیر فعل پورا نہیں ہوتا تو اس سے ) بھی) عمل کی اصل میں خرابی آتی ہے، برعکس فساد کے، کیونکہ اس کی اصل حکمِ شرع کے موافق ہے لیکن اس کی کوئی ایسی وصف جو اصل کے لئے نہیں ہے، شارع کے حکم کے خلاف ہے اور اس لئے اس کے سبب کو زائل کرنے سے فساد بھی زائل ہو جا تا ہے)
عبادات میں فساد کا تصور نہیں ہے کیونکہ ان میں سارے ارکان اور شرائط اصل سے متعلق ہیں اور اگر ان میں کوئی بھی رہ جائے، تو عبادت باطل ہو گی۔ اس کے برعکس عقود میں فساد پایا جاتا ہے۔ مثلاً ایک بیع جس میں سامان کی قیمت کے بارے میں لاعلمی ہو، تو چونکہ یہ لاعلمی اس کی اصل کے بارے میں نہیں ہے، اس لئے یہ بیع فاسد ہو گا نہ کہ باطل۔ پس اگر سامان کی قیمت کی لاعلمی دور ہو جائے یعنی قیمت معلوم ہو جائے، تو یہ عقد صحیح ہو جائے گا۔ البتہ شرکۃ المساہمۃ( joint-stock company)اپنی اساس سے باطل ہے کیونکہ یہ کسی شریکِ بدن سے خالی ہے جو اس کی اصل کے متعلق ایک شرط ہے۔ اس کے برعکس اگر شرکت میں مال مجہول ہو تو یہ عقد فاسد ہو گا اور اگر یہ جہالت(لاعلمی) دور ہو جائے )غر ر فی الوصف) یعنی مال معروف ہو جائے، تو یہ عقدِ شرکت صحیح ہو جائے گا۔