کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 4
اثر ہوا کہ یہ صرف دین کے دنیا سے جدا ہونے کے علمبرداروں (secularists) تک محدود نہ رہا، بلکہ جن لوگوں نے اسلام کی طرف بھی پکارا یعنی ’’ اسلامی متجددین(islamic modernists)، انھوں نے بھی ان افکار کو اسلام کا لبادہ چڑھانے کی سر توڑ کوششیں کیں ! یہ غلط تاویلیں اس لیے کی گئیں تاکہ اسلام کو موجودہ حالات کے مطابق ڈھالا جا سکے۔ دوسرے لفظوں میں مغربی فکر کو اساس بنا کر اسلام سے مطابقت پیدا کرنے کا رجحان شروع ہوا اور یہ اب تک استعمار کی حمایت و راہنمائی میں، گذشتہ ۱۵۰ سال سے جاری ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا ’’ نیا اسلام‘‘ قائم ہو، جو استعمار کے تسلط و مفاد کو برقرار رکھے اور اصل اسلام سے لوگوں کو دور رکھا ر جائے کیونکہ یہ ان کے مسلمانوں پر غلبے کو قبول نہیں کرتا اور امت سے ان کے اثر و رسوخ کو، خواہ وہ عسکری ہو یا سیاسی، فکری ہو یا اقتصادی، جڑ سے اکھاڑنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسی لیے آج بھی مسلمانوں کے حکمران، جو کہ مغربی استعمار کے ایجنٹز ہیں، ’’جدید اسلام‘‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں اور عملی طور پر اس ’’جدیدیت‘‘(modernism) کی آڑ میں، تعلیمی نصاب کی ترامیم کے ذریعے، لوگوں کو اسلام سے مزید دور کرنے کی کوشش میں مبتلا ہیں۔ جہاں تک اس اسلوب کا تعلق ہے جو’’ متجددین ("modernists")اسلام کی غلط تاویل کے لیے استعمال کیا، وہ یوں تھا کہ مغرب میں جو بھی فکر پروان چڑھتا، تو یہ لوگ فوراً اسلامی نصوص کی طرف رجوع کرتے اور ان سے مغربی افکار کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے، پھر یہ دعویٰ کرتے کہ اسلام میں پہلے سے وہ فکر موجود ہے۔ مثلاً جمہوریت (democracy) کو’’ شوریٰ‘‘، آزادیِ رائے کو’’ امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ اور آزادیِ ملکیت کو اسلام میں انفرادی ملکیت کے حق کی آڑ میں اختیار کیا گیا۔ یہ غلط تاویلیں فروعات تک محدود نہ رہنے دی گئیں بلکہ وہ لوگ اصولوں میں بھی یہ زہر پھیلانے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے John Stuart Mill اورJeremy Bentham کے منفعت پرستی(utilitarianism)کے فکر کو اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کی۔ اس مغربی فکر کے اسلامی فکر سے کوسوں دور ہونے کے باوجود، اسے ’’مصلحت ‘‘ اور ’’مقاصدِ شریعت‘‘ کے ذریعے، اسلام سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر عمل کا پیمانہ’’ فائدہ و نقصان‘‘ مانا جانے لگا اور اسلام کا’’ حلال و حرام ‘‘ کا پیمانہ، مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل ہونے لگا، یا زیادہ سے زیادہ ثانوی حیثیت کا بن کر رہ گیا۔ مغرب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، اسلام کی قانون سازی میں بھی انسانی عقل کو مرکزی کردار دینے کا رجحان شروع ہوا اور اس کا جواز بھی اسلامی نصوص میں ڈھونڈنے کی جدوجہد کی گئی۔ انہوں نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ نصوص کی لفظی پابندی ضروری نہیں بلکہ ان کی ’’روح ("spirit of the text") کو دیکھنا چاہیے۔ نئے قاعدے بنائے گئے جیسے ’’زمان و مکان کے تغیّر سے احکام بھی بدل جاتے ہیں ‘‘، ’’جہاں مصلحت