کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 38
’’ اشتریھا فأعتقیھا ولیشترطوا ما شاء وا ‘‘(البخاری)
(اسے خرید کر آزاد کر دو اور انھیں وہ شرائط عائد کرنے دوجو وہ چاہتے ہیں)
یہاں ولیشرطوا ما شاء وا اس کی اباحت پر صریح نص ہے کہ انسان جو چاہے شرائط عائد کر سکتا ہے۔
’’ المسلمون عند شروطھم ‘‘(الحاکم)
(مسلمان اپنی( آپس کی) شرائط پر پورا اترتے ہیں )
یعنی اپنی عائد کردہ شرائط جو( اضافی طور پر) رکھی گئی ہیں۔ البتہ، جیسے پہلے بھی بتایا گیا ہے، ان شرائط کا شرع کے خلاف ہونا ناجائز ہے۔ مثال کے طور پر، ایک عقدِ بیع میں دو مختلف مدّات کی شرائط عائد کرنا۔ مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ’ ’میں اس شرط پر تمہیں یہ چیز بیچوں گا اگر تم اپنی بیٹی مجھ سے بیاہ دو‘‘تو یہ شرط باطل ہو گی اور اس لئے یہ عقد بھی باطل ٹھہرے گا۔
’’ لا یحل سلف وبیع ولا شرطان فی بیع ‘‘(أبو داود)
(ایک بیعانہ اور ایک بیع)ایک ہی وقت پر) جائز نہیں اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں )
اسی طرح اگر بائع اپنا سامان کسی خریدار کو فروخت کرتے ہوئے اس سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس سامان کو آگے نہ بیچے، تو یہ شرط باطل ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شرط مقتضیِ عقد کے منافی ہے کیونکہ جب کوئی شخص کسی چیز کو خرید لیتا ہے تو وہ اس کی ملکیت بن جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ اس کے تصرف کا پورا حقدار ہوتا ہے۔ اس لئے یہ شرط عائد کر دینا کہ تم اسے نقل کر کے آگے نہیں فروخت کرو گے، حکمِ شرعی کے خلاف ہے۔ آج کل سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت، اسلامی ممالک میں یہ عمل عام ہو رہا ہے اور وہ intellectual property rights کے نام پر۔ استعماری قوتیں ایسے قوانین کے ذریعے دوسری قوموں کو ترقی سے روکتی ہیں اور ان کی محتاجی کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں، خاص طور پر امتِ مسلمہ کو۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی حکومتیں ایسے قوانین کو، خوبصورت بنا کر، امت کے سامنے پیش کر رہی ہیں حالانکہ یہ عمل حرام ہے۔
اسی طرح کوئی ایسی شرط لگانا جو حلال کو حرام بنائے یا حرام کو حلال، بھی ناجائز ہے۔
’’ المسلمون علی شروطھم إلا شرطا حرم حلالا أو أحل حراما ‘‘(الترمذی)
(مسلمان اپنی) آپس کی) شرائط پر پورا اترتے ہیں ماسوا کوئی