کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 37
2) بذاتِ خود مشروط کا تقاضا: اس کی شرط خطابِ وضع کی طرف لوٹتی ہے۔ مثلاً زکوٰۃ کا نصاب)خطابِ وضع) مشروط ہے اور اس کی شرط ایک سال کا گزرنا ہے۔ لہذا یہاں شرط براہِ راست حکم(خطابِ تکلیف) سے منسلک نہیں ہے یعنی اس کی ادائیگی سے، بلکہ زکوٰۃ کے سبب)نصاب) سے منسلک ہے یعنی یہ زکوٰۃ کے نصاب (خطابِ وضع) کے لئے شرط ہے۔ اسی طرح چور کا ہاتھ کاٹنے کی شرط محفوظ مقام)حرز) ہے کیونکہ ہاتھ کاٹنے کا سبب چوری ہے اور اس وجہ سے یہ خطابِ وضع ہے، پھر اس کی شرط محفوظ مقام ہے، لہذا یہ سبب کی شرط ہے۔ ’’ ما أخذ من عطنہ ففیہ القطع إذا بلغ ما ے ؤخذ من ذلک ثمن المجن‘‘ (وہ جو کچھ اپنی جگہ سے اٹھایا جائے تو( اس صورت میں) ہاتھ کاٹا جائے اگر چرائی ہوئی چیز ڈھال کی قیمت تک پہنچ جائے) ’’ ماکان فی الخزائن ففیہ القطع إذا بلغ ثمن المجن‘‘ (جو کچھ اسٹوروں میں تھا تو اس کے لئے ہاتھ کاٹنا ہے اگر اس چیز کی قیمت ڈھال کی قیمت تک پہنچ جائے) خواہ شرط خطابِ تکلیف کی طرف لوٹے یا خطابِ وضع کی طرف، دونوں صورتوں میں، ذاتی طور پر، اس کی دلیل کا نصِ شرعی سے ثابت ہونا لازمی ہے۔ البتہ شرعی عقود جیسے خرید و فروخت، شرکت اور وقف وغیرہ، کی شرائط اس سے مستثناء ہیں، ان میں ہر قسم کی شرائط لگائی جا سکتی ہیں خواہ وہ کسی نص میں وارد ہوئی ہوں یا نہ ہوں، بشرطیکہ یہ کسی شرعی نص کے خلاف نہ ہوں۔ ’’ ما بال رجال یشترطون شروطا لیست فی کتاب اللّٰہ، ماکان من شرط لیس فی کتاب اللّٰہ فھو باطل و إن کان مائۃ شرط، قضاء اللّٰہ أحق وشرط اللّٰہ أوثق‘‘(البخاری) (بعض) لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں، ہر وہ شرط جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے تو وہ باطل ہے خواہ وہ سو ہی کیوں نہ ہوں، اللہ کی شرائط زیادہ حق والی ہیں اور زیادہ مضبوط بھی) یہاں شروطا لیست فی کتاب اللّٰہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ شرائط کتا ب اللہ میں وارد ہوں، بلکہ اس سے مراد شرع کے مخالف نہ ہونا ہے۔ یہ اس لئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی اپنی شرائط لگانے کو مطلقاً قبول فرمایا ہے۔