کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 31
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾62:9 (اے ایمان والو! جب جمعے کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو،یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو) 10) اگر ما لا یتم الواجب إلا بہ فھو واجب کے قاعدے میں شامل ہو۔ یعنی ہر وہ عمل جو کسی واجب کی کفایت کرے اور اسے نفع پہنچائے۔ مثال کے طور پر نماز کے لئے اس کے ارکان(رکوع، سجدہ وغیرہ)، کیونکہ ان کے بغیر نماز پوری نہیں ہوتی۔ لیکن اگر کوئی چیز اس عمل میں شامل نہیں بلکہ اس سے خارج ہے، تو اس صورت میں وہ کسی دوسری دلیل کی محتاج ہے۔ مثلاً وضو، کیونکہ یہ نماز کا حصہ نہیں بلکہ اس کی شرط ہے۔ اسی طرح اس قاعدے کے مطابق اسلامی ریا ست کے قیام کے لئے جو بھی اعمال درکار ہیں، وہ بھی لازم ٹھہرے۔ یعنی ایک منظم جماعت کا ہونا، جو اسلامی مبداء( ضابطہ حیات) پر قائم ہو، اس کی طرف پکارے اور اس مبداء کو زندگی میں نافذ کرنے کے لئے فکری اور سیاسی جدوجہد کرے۔ 11) اگر کسی کام میں کوئی فعل اصولی طور پر ممنوع ہو، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باوجود، ایک خاص موقع پر، اسے سرانجام دیا ہو۔ مثال کے طور پر نماز کی ایک رکعت میں ایک سے زیادہ رکوع کرنا ممنوع ہے کیونکہ اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ مگر نمازِ خسوف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکوع فرمائے جو اس فعل کے واجب ہونے کا قرینہ ٹھہرا۔ لہذا یہ دو رکوع نمازِ خسوف کے رکن قرار پائے۔