کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 3
مقدمہ
امتِ مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ بلا شبہ صرف اسلام کی بنیاد پر ممکن ہے، مگر یہ امر مسلمانوں سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات یعنی مبداء(ideology) کی حیثیت سے اختیار کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کے مسائل کے لیے، زندگی کے ہر پہلو سے متعلقہ معالجات (solutions) درکار ہوتے ہیں اور ان کی فعّالیت اس بات پر منحصر ہے کہ آیا یہ اس عقیدے )(creed) سے ہم آہنگ ہیں جس پر لوگ اعتقاد رکھتے ہیں یا نہیں۔ چونکہ مسلمان اسلام کے عقیدے پر پہلے سے ایمان لاتے ہیں، اس لیے ان کے مسائل کی طبعی اور صحیح نگہداشت تب ہی ممکن ہے جب وہ ان نظاموں (systems) کو اختیار کریں، جو اس اسلامی عقیدے سے نکلتا ہے۔
افسوس کہ اس حقیقت کو نہ سمجھنے کے باعث، آج بھی کئی مسلمان اپنے مسائل کے حل مغرب میں ڈھونڈتے ہیں اور اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ مغربی نظریات و معالجات کو مسلمانوں کے معاشرے پر نافذ کرنے سے ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ اس کے باوجود کہ گذشتہ صدی کے بیشتر حصے میں ریاستی سطح پر صرف انہی مغربی نظاموں کو ہمارے اوپر نافذ کیا گیا ہے، مگر ہمارے معاشرتی حالات مزید بد تر ہوتے گئے ہیں۔ بہر حال جن میدانوں (fields) میں مسلمان مغربی فکر سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ تین ہیں : سیاست، معیشت اور تشریع۔ غالباً یہی معاشرتی زندگی کے اہم ترین پہلو ہیں اور یہی ہر معاشرے پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرتی تعلقات کی تنظیم خاص طور پر انہی سے وابستہ ہے۔ اس مغربی فکر کا مسلمانوں کی ذہنیت پر اتنا