کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 28
(جو لوگ نا حق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں،وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے) 2) جب کسی فعل کو تسلسل سے کرنے کے ساتھ کسی عذر پر کوئی رخصت یا قضا یا معافی کا بیان ہو۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٨٣﴾ أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ﴾2:183-184 (اے ایمان والو ! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو، گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے) ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ﴾إلی قولہ﴿ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا ﴾5:6 (اے ایمان والو!جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منہ کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھولو،اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو.....تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو) ’’من نام عن صلاۃ أو نسیھا فلیصلھا إذا ذکرھا ‘‘(متفق علیہ) (جس کسی نے نیند یا بھول کی وجہ سے نماز نہ پڑھی ہو تو یاد آتے ہی اسے پڑھ لے) 3) جب کوئی قول یا فعل کسی التزام کی ضرورت کو بیان کرے باوجودیکہ اس میں مشقت و دشواری پائی جائے اور اس کا کوئی بدل نہ ہو۔ ﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ﴾2:216 (تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے گو کہ وہ تمہیں نا گوار معلوم ہو) اسلامی ریاست کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معین طریقے سے قائم کیا، جس میں طاقتور قبائل سے نصرت طلب کرنا بھی شامل تھا۔ ان سرگرمیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لہو لہان بھی کر دیے گئے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام جاری رکھا اور قبائل کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرتے رہے، یعنی شدید تکلیف اور موت کے خطرے کے باوجود، آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلبِ نصرت کے عمل کو مستقل طور پر سرانجام دیتے رہے۔