کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 27
ہو گی۔ یہ کہنا اس وجہ سے غلط ہے کیونکہ کسی بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شرع خاموش ہے۔ بلکہ، اس کے برعکس، شرع نے تو حکم کو بیان کر دیا ہے، جو اس صورت میں مباح ہے۔ یہ اس لئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اقوال کی طرح، بذاتِ خود دلیل ہے اور سنت کا ایک جز، اور سنت قرآن کی طرح ایک شرعی ماخذ ہے۔ لہذا آج جب ہم کوئی ایسا فعل انجام دیتے ہیں جو دورِ جاہلیت میں بھی ہوا کرتا تھا، تو ہم اسے اس حیثیت سے اختیار کرتے ہیں کہ یہ حکم شرعی ہے اور اس کی کوئی دلیل موجود ہے، نہ اس حیثیت سے کہ یہ دورِ جاہلیت کی کوئی رسم یا معاملہ ہے۔ قرینہ قرینہ کا معنی خطاب کی مراد متعین کرنے والی لفظی یا احوالی علامت ہے۔ حکم شرعی کی قسم کو نصوص کے قرائن سے سمجھا جاتا ہے۔ یعنی انہی قرائن سے کسی فعل کا فرض، مندوب، مباح، مکروہ یا حرام ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ قرینہ کی تین اقسام ہیں : 1) وہ جو طلبِ جازم ہونے کا فائدہ دے۔ اس سے فعل کے فرض یا حرام ہونے کا تعین ہوتا ہے۔ 2) وہ جو طلبِ غیر جازم ہونے کا فائدہ دے۔ اس سے فعل کے مندوب یا مکروہ ہونے کا تعین ہوتا ہے۔ (وہ جو اختیار دینے کا فائدہ دے۔ اس سے فعل کے مباح ہونے کا تعین ہوتا ہے۔ طلبِ جازم کے قرائن 1) دنیا یا آخرت میں سزا۔ ﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ ﴾5:38 (چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو،یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا عذاب اللہ کی طرف سے) ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ﴾4:10