کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 26
﴿ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ﴾5:1
(حالتِ احرام میں شکار کو حلال جاننے والے نہ بننا)
شکار کا حکم، خلالِ احرام کی نہی کے بعد آیا ہے، پس احرام کھولنے کے بعد شکار مباح ٹھہرا کیونکہ یہ اپنی اصلی حالت کی طرف واپس لوٹے گا، یعنی احرام سے پہلے والی حالت جس میں شکار مباح ہے۔
نیز یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اگر کسی فعل کے بارے میں کوئی حرج نہ پایا جائے تو وہ فعل خودبخود مباح ٹھہرے گا۔ یا اگر کسی فعل سے حرج اٹھا لیا گیا ہو تو اس کا معنی اجازت ہے۔ یہ اس لئے کیونکہ کسی چیز کی حرمت سے اس کی ضد کا حکم ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی چیز کے حکم سے اس کی ضد پر تحریم ثابت ہوتی ہے۔ بلکہ رفع الحرج(حرج کا اٹھنا) کسی فرض سے منسلک ہو سکتا ہے جیسے :
﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ﴾2:158
(پس بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنے والے پر ان کے طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں)
اس آیت میں، رفع الحرج کے باوجود، حج و عمرہ کے دوران طواف کرنا فرض ہے مباح نہیں۔ اسی طرح رفع الحرج کسی رخصت کے ساتھ بھی منسلک ہو سکتا ہے جیسے :
﴿ وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ ﴾4:101
(جب تم سفر میں جا رہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں)
یہاں رفع الحرج کا مطلب اباحت نہیں، بلکہ ایک حالت)سفر) میں قصرِ نماز کی رخصت دی گئی ہے۔ لہذا مباح وہ نہیں ہے جس میں حرج نہ پایا جائے یا جس سے حرج اٹھا لیا جائے، بلکہ مباح و ہ ہے جس کے چھوڑنے یا کرنے کے اختیار(اجازت) کے بارے میں شارع کے خطاب پر کوئی سمعی دلیل پائی جائے۔
مثال :
﴿ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ﴾2:223
(تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں اپنی کھیتیوں میں جس طرح چا ہو آؤ)
علاوہ ازیں یہ کہنا بھی غلط ہے کہ دورِ جاہلیت کے کئی معاملات اسلام کی بعثت کے بعد بھی جاری رہے اور اسلام نے ان پر خاموشی اختیار کی اور وہ مباح مانے گئے، جبکہ جن چیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا، صرف وہی ناجائز ٹھہرے۔ لہذا اصل یہ ہے کہ جب تک شرع کسی بات پر خاموش ہے اور اسے حرام نہیں قرار دیتی، تو وہ جائز