کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 25
(بے شک میں قرآن اور اس کی مثل)سنت) کے ساتھ بھیجا گیا ہوں) پس پہلی حدیث کا معنی یہ نہیں ہے کہ جس بات پر وحی خاموش ہے تو وہ مباح ہے۔ یہ اس لئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: الحلال ما أحل اللّٰہ میں ہر وہ چیز شامل ہے جو حرام نہ ہو، چنانچہ اس میں فرض، مندوب، مباح اور مکروہ، سب شامل ہیں کیونکہ یہ سب حلال ہیں، یعنی وحی نے انھیں حرام نہیں قرار دیا۔ جہاں تک حدیث کے دوسرے حصے کا تعلق ہے : وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جن چیزوں پر سکوت ہے، وہ حلال ہیں اور یہ اللہ کی طرف سے معاف ہیں اور یہ انسانوں پر اس کی رحمت ہے کہ اس نے، ان کے لئے انہیں حرام نہیں بلکہ حلال قرار دیا۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے : ’’ إن أعظم المسلمین فی المسلمین جرما من سأل عن شیء لم یحرم علی المسلمین فحرم علیھم من أجل مسألتہ ‘‘(مسلم) (مسلمانوں میں سے وہ جو مسلمانوں کے خلاف اپنے جرم میں سب سے بڑا ہے وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں جو مسلمانوں کے لئے حرام نہیں تھی مگر اس کے سوال کرنے کی وجہ سے وہ ان پر حرام کر دی گئی) یعنی ایسی چیز کے بارے میں پوچھ جس کی تحریم پر وحی خاموش ہے۔ لہذا ان احادیث میں سکوت سے مراد کسی چیز کی تحریم پر سکوت ہے، نہ کہ حکم شرعی کے بیان پر سکوت۔ یہ اس لئے کیونکہ ایسا کوئی فعل یا چیز ہے ہی نہیں جسے شارع نے بیان نہ کیا ہو، بلکہ وحی میں ہر مسئلے کا حل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ﴾16:89 (ہم نے ایسی کتاب نازل کی ہے جو ہر چیز کو کھول کھول کر بیا ن کرتی ہے) یہ آیت اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ شرع زندگی کے کسی مسئلے میں خاموش نہیں، بلکہ اس میں زندگی کے تمام افعال اور اشیاء پر حکم موجود ہے اور اس بات پر اعتقاد ایمان کا تقاضا ہے۔ پس دوسری احکامِ شرعیہ کی اقسام کی طرح مباح بھی اپنی دلیل سے ثابت ہوتا ہے۔ مثال : ﴿ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ﴾5:2 (جب تم احرام اتار ڈالو تو شکار کھیلو) یہاں احرام کھولنے کے بعد شکار کا حکم دیا جا رہا ہے مگر ایک دوسرے قرینہ کی وجہ سے شکار کھیلنا فرض یا مندوب نہیں، بلکہ مباح ہے۔ وہ قرینہ یہ ہے :