کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 24
شارع کے خطاب میں کسی فعل کو ترک کرنے کی طلب پائی جائے، پھر اس میں کوئی ایسا قرینہ پایا جائے جو اس کو طلبِ غیر جازم ہونے کا فائدہ دے، تو اس کے باعث یہ فعل مکروہ قرار پائے گا۔ مثال : ’’ من کان موسرا ولم ینکح فلیس منا ‘‘(البیھقی) (وہ جو مالدار ہو اور نکاح نہ کرے تو وہ ہم میں سے نہیں) یہاں صیغۂ نہی کے معنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدم نکاح کو منع کیا ہے، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مالداروں کے نکاح نہ کرنے پر سکوت اختیار کیا، جو اس طلب کے غیر جازم ہونے کا قرینہ ہے۔ لہذا مالداروں کے لئے عدم نکاح مکروہ قرار پایا۔ مباح شارع کا خطاب جب کسی فعل کو کرنے یا ترک کرنے کے بارے میں اختیار دے، تو وہ مباح کہلائے گا۔ یعنی اس اختیار پر ا کوئی شرعی دلیل ہو۔ یہ اس لئے کیونکہ مباح احکامِ شرعیہ میں سے ہے، یعنی یہ، حکمِ اباحت پر شارع کا خطاب ہے جو ہمیشہ دلیل سے ثابت ہوتا ہے، کیونکہ قائدہ ہے لا حکم قبل ورود الشرع)شرع کے وارد ہونے سے پہلے کوئی حکم نہیں)۔ لہذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہر وہ فعل جس پر شرع خاموش ہے، یعنی جسے نہ شرع نے حرام قرار دیا ہو اور نہ حلال، تو وہ مباح ہے۔ جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے : ’’ الحلال ما أحل اللّٰہ فی کتابہ والحرام ما حرم اللّٰہفی کتابہ وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ ‘‘(الترمذی) (حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے اور جس پر وہ خاموش ہے وہ معاف ہے) تو اس میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس چیز پر قرآن خاموش ہے تو وہ مباح ہے، کیونکہ قرآن کی طرح حدیث میں بھی حرام و حلال کے احکام پائے جاتے ہیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’ ألا انی أوتیت القرآن و مثلہ معہ ‘‘(أحمد)