کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 23
یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صیغۂ امر کے معنی میں نمازِ جماعت کی طلب فرمائی، مگر اس مسئلے میں ایک ایسا قرینہ موجود ہے جو اسے طلبِ غیر جازم ہونے کا فائدہ دے رہا ہے، وہ انفرادی طور پر نماز پڑھنے پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سکوت کی دلیل ہے اور اس فعل میں اللہ سے قربت کا حصول، لہذا نمازِ جماعت مندوب) سنت) قرار پائی۔
حرام
شارع کا خطاب اگر کسی فعل کو ترک کرنے کے بارے میں ہو اور یہ طلبِ جازم کے ساتھ ہو، تو یہ حرام یا محظور کہلائے گا۔ ان دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔ حرام وہ ہے جس کے کرنے والے کی مذمت کی جائے اور چھوڑنے والے کی تعریف کی جائے یا کرنے والا سزا کا مستحق ہو۔
شارع کے خطاب میں کسی فعل کو ترک کرنے کی طلب صیغۂ نہی(لا تفعل) میں ہو گی یا جو کچھ اس معنی کا قائم مقام ہو۔ پھر اگر اس میں کوئی ایسا قرینہ پایا جائے جو فعل کے ترک کو طلبِ جازم ہونے کا فائدہ دے، تو اس کے باعث یہ فعل حرام قرار پائے گا۔
مثال :
﴿ وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ﴾17:32
(خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے)
یہاں صیغۂ نہی ﴿ لَا تَقْرَبُوا ﴾سے طلبِ ترک ثابت ہے، جبکہ ﴿ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ﴾ اس کے طلبِ جازم ہونے کا قرینہ ہے۔ یوں زنا کا حرام ہونا ثابت ہوا۔
مکروہ
شارع کا خطاب اگر کسی فعل کو ترک کرنے کے بارے میں ہو مگر طلبِ جازم کے ساتھ نہ ہو، تو یہ مکروہ کہلائے گا۔ مکروہ وہ ہے جس کے چھوڑنے والے کی تعریف کی جائے اور کرنے والے کی مذمت نہ کی جائے، یا جس کا چھوڑنا کرنے سے بہتر ہو۔