کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 22
﴿ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ﴾24:56
(اور نماز قائم کرو)
﴿ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴾4:103
(یقیناً نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے)
پہلی آیت میں ﴿ وَأَقِيمُوا ﴾ صیغۂ امر میں ہے اور دوسری میں ﴿ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴾صیغۂ امر کا قائم مقام ہے کیونکہ یہ امر کے معنی میں ہے۔ ان دونوں آیات سے نماز کی طلب ثابت ہے مگر جس قرینہ نے اس طلب کو جازم قرار دیا وہ یہ
آیت ہے :
﴿ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ﴿٤٢﴾ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ﴾74:42-43
(تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے)
یوں اس طلبِ جازم سے نماز کی فرضیت سمجھی گئی ہے۔
مندوب
شارع کا خطاب اگر کسی فعل کو کرنے کے بارے میں ہو لیکن طلبِ جازم کے ساتھ نہ ہو، تو یہ مندوب کہلائے گا۔ مندوب، سنت اور نفل کے ایک ہی معنی ہیں، البتہ اسے عبادات میں سنت و نفل کہا جاتا ہے، جبکہ دوسرے معاملات پر’’ مندوب‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔ مندوب وہ ہے جس کے کرنے والے کی تعریف کی جائے اور چھوڑنے والے کی مذمت نہ کی جائے، یعنی کرنے والا ثواب کا مستحق ہو اور چھوڑنے والا سزا کا مستحق نہ ہو۔
شارع کے خطاب میں کسی فعل کو کرنے کی طلب پائی جائے، پھر اس میں کوئی ایسا قرینہ پایا جائے جو طلب کو غیر جازم ہونے کا فائدہ دے، تو اس کے باعث فعل مندوب قرار پائے گا۔
مثال :
’’ صلاۃ الجماعۃ تفضل علی صلاۃ الفرد بسبع وعشرین درجۃ ‘‘(متفق علیہ)
(جماعت میں نماز پڑھنا، اکیلے پڑھنے سے ستائیس مرتبہ بہتر ہے )