کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 21
خطابِ تکلیف
خطابِ تکلیف)حکمِ تکلیفی)میں یا تو کسی فعل کو کرنے کی طلب ہو گی یا کسی فعل کو ترک کرنے کی طلب یا پھر اس میں کسی فعل کو کرنے یا چھوڑنے کا اختیار دیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں احکامِ شرعیہ کی یہ پانچ اقسام منظرِ عام پر آتی ہیں : فرض، مندوب، مباح، مکروہ اور حرام۔ زندگی کے تمام افعال انہی میں محدود ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے :
فرض
شارع کا خطاب اگر کسی فعل کے کرنے سے متعلق ہو اور یہ طلبِ جازم کے ساتھ ہو، تو یہ فرض یا واجب کہلائے گا۔ فرض اور واجب کے ایک ہی معنی ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں کیونکہ یہ دو لفظ مترادف ہیں۔ یہ کہنا صحیح نہیں کہ جو چیز قطعی دلیل)قرآن اور سنتِ متواترہ) سے ثابت ہے وہ فرض ہے اور جو ظنی دلیل( خبر واحد اور قیاس) سے ثابت ہے وہ واجب ہے۔ یہ اس لئے کیونکہ دونوں ناموں )فرض یا واجب)کی ایک ہی حقیقت ہے اور وہ یہ کہ شارع نے کسی فعل کرنے کی طلبِ جازم کی ہے۔ اس اعتبار سے قطعی دلیل اور ظنی دلیل میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ یہ مسئلہ خطاب کے مدلول سے متعلق ہے نہ کہ اس کے ثبوت سے۔ فرض وہ ہے جس کے کرنے والے کی تعریف کی جائے اور نہ کرنے والے کی مذمت کی جائے یا اس کو چھوڑنے والا سزا کا مستحق ہو۔
فرض کو قائم کرنے کی حیثیت سے، اس کی دو قسمیں ہیں : فرضِ عین اور فرضِ کفایہ۔ ان کے وجوب کے اعتبار سے، ان میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں طلبِ جازم کے ساتھ ہیں۔ البتہ ان کو قائم کرنے کی حیثیت سے ان میں یہ فرق ہے کہ فرض عین میں ہر فرد سے ذاتی طور پر فعل سرانجام دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جبکہ فرضِ کفایہ میں عمومی طور پر مسلمانوں سے فعل کا مطالبہ کیا گیا ہے، یعنی خطاب کا مقصد معین فعل کی انجام دہی ہے نہ یہ کہ ہر فردِ واحد اسے انجام دے۔ لہذا اگر اس فعل کو بعض مسلمانوں نے سر انجام دے دیا( یعنی فعل کی ادائیگی قائم ہو چکی) تو باقیوں سے اس کا ذمہ ساقط ہو جائے گا۔ البتہ ثواب کے مستحق وہی ہوں گے جنہوں نے اس فعل کو کیا۔ اور اگر اس فعل کو کسی نے انجام نہیں دیا، تو جب تک وہ قائم نہیں ہو جاتا، سب گنہگار رہیں گے، ما سوا وہ لوگ جو اس کی ادائیگی میں مشغول ہیں۔
شارع کی طرف سے کسی فعل کو کرنے کی طلب صیغۂ امر(افعل) کے ساتھ ہو گی یا جو کچھ اس معنی کے قائم مقام ہو۔ پھر اگر کوئی ایسا قرینہ پایا جائے جو فعل کو طلبِ جازم ہونے کا فائدہ دے، تو اس صیغۂ طلب اور قرینۂ جازمہ کے باعث، فعل واجب قرار پائے گا۔
مثال :