کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 19
(قسم ہے تیرے رب کی!ہم ان سب سے ضرور باز پرس کریں گے،ہر اس عمل کی جو وہ کرتے تھے)یعنی اللہ تعالیٰ ہمارے تمام افعال کا حساب لے گا۔
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﴾ إلی قولہ ﴿ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ﴾4:59
(اے ایمان والو!اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی ....پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ )
’’ من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد ‘‘(مسلم)
(جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ عمل مسترد ہے)
یہاں سے ثابت ہے کہ ہر فعل کی اصل آزادی)اباحت) نہیں بلکہ حکمِ شرعی کی اطاعت اور اس کی موافقت ہے، ورنہ وہ عمل ہی مسترد ہے ! کوئی بھی عمل خود بخود جائز نہیں قرار پائے گا بلکہ شارع کے خطاب سے حکم معلوم کرنے کے بعد، اس کی پابندی کی جائے گی۔ یہیں سے آزادیِ فعل کے قاعدے( Freedom of acts unless clear prohibitions are stated) کی تردید ثابت ہے۔ نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعمل بھی الأصل فی الأفعال التقید بالحکم الشرعی(افعال میں حکمِ شرعی کی پابندی کی جائے گی) کے قاعدے پر مبنی تھا۔ اس بات کی دلیل قرآن میں کئی جگہ پر ان الفاظ میں مذکور ہے ﴿ يَسْأَلُونَكَ ﴾( وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں)۔ اگر افعال کی اصل آزادی ہوتی
تو صحابہ رضی اللہ عنہم کرام کا معمول پوچھنا نہ ہوتا۔