کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 18
افعال کا اصل حکم کسی چیز کے جائز ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس سے متعلقہ تمام افعال خود بخود جائز ہو جائیں گے، بلکہ ہر فعل کے لئے دلیل درکار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمِ شرعی، بندوں کے افعال سے متعلق شارع کا وہ خطاب ہے جو ان کے معالجات(مسائل کے حل) کے لئے وارد ہوا ہے، نہ کہ اشیاء کے لئے۔ اشیاء کا کام تو فقط افعال کے دوران استعمال ہونا ہے، لہذ ا خطاب کا اصل افعال ہیں، جبکہ اشیاء بندوں کے افعال کے تابع ہیں، خواہ یہ خطاب میں مذکور ہوں یہ نہیں۔ مثلاً کپڑا اشیا ء کے عام حکم کے مطابق مباح ہے، مگر اس بات سے اس کی تجارت کا فعل، خود بخود جائز نہیں ہو جائے گا، بلکہ پہلے تجارت کے فعل کا حکم معلوم کیا جائے گا : ﴿ وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ ﴾2:275 (اللہ تعالیٰ نے تجارت کو جائز قرار دیا ہے) تجارت کے فعل کا جواز ہمیں اس آیت سے ملتا ہے، لہذا چونکہ کپڑے کی اباحت بھی ثابت ہے، اس لئے کپڑے کی خرید و فروخت مباح ٹھہری۔ یہ اس فعل کا حکم ہے۔ اسی طرح مثلاً پستول (pistol) ایک مباح چیز ہے کیونکہ اس کی حرمت پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ مگر کسی مسلمان کو اس سے قتل کرنے کا فعل حرام ہے۔ ﴿ وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ﴾4:93 (اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے تو اس کی سزا دوزخ ہے) افعال کا قاعدہ : الأصل فی الأفعال التقید بالحکم الشرعی(افعال میں حکمِ شرعی کی پابندی کی جائے گی)۔ لہذا انسان کے لئے، نہ تو تمام افعال بنیادی طور پر جائز ہیں اور نہ ہی حرام، بلکہ ہر فعل کی انجام دہی سے پہلے اس کا حکم تلاش کیا جائے گا اور اس کی پابندی لازم ہو گی۔ ہر حکم اپنی(شرعی) دلیل پر مبنی ہے۔ اس قاعدے کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں : ﴿ فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٩٢﴾ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾15:92-93