کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 15
﴿ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ ﴿٦﴾ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ ﴾41:6-7 اور ان مشرکوں کے لئے )بڑی ہی) خرابی ہے جو زکوٰۃ نہیں دیتے) ﴿ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ﴿٤٢﴾ قَالُوا﴾ إلی قولہ ﴿ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ﴾74:42-44 (تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا، وہ جواب دیں گے .....اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے) 2) کافر کے ان افعال کو قبول نہیں کیا جائے گا جن کی ادائیگی کی صحت کے لئے اسلام شرط ہے، مثلاً عبادات، حقوقِ مالیات میں گواہی جیسے قرض یا کافر کی مسلمانوں پر حکومت وغیرہ۔ البتہ جن افعال کے لئے اسلام شرطِ صحت نہیں ہے، تو انہیں قبول کیا جائے گا جیسے کسی کافر کا مسلمانوں کے ساتھ مل کر قتال کرنا یا سفر میں وصیت پر گواہی۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ﴾5:106 (اے ایمان والو! تمہارے آپس میں دو شخص کا گواہ ہونا مناسب ہے جبکہ تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو،و ہ دو شخص تم میں سے ایسے ہوں کہ دیندار ہوں یا غیر لوگوں میں سے دو شخص ہوں اگر تم کہیں سفر میں گئے ہو اور تمہیں موت آ جائے) (مسلمان اپنے تمام افعال کو احکامِ شرعیہ کے مطابق سر انجام دے گا۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ﴾4:59 (اے ایمان والو!اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور تم میں سے صاحبِ حکومت کی پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ اور رسول کی جانب) اسلامی ریاست میں کفار پر، عقدِ ذمہ کے باعث، احکامِ شرعیہ نافذ ہوں گے۔ ﴿ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ﴾9:29 (یہاں تک وہ ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں)