کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 14
محکوم علیہ
شارع کا خطاب جس بندے سے مخاطب ہے، اس پر’ ’محکوم علیہ ‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔ شرعی دلائل کے
استقراء سے، بندے سے متعلق مندرجہ ذیل شرائط ظاہر ہوتی ہیں :
1) اسلام کے بارے میں شارع کا خطاب، سب انسانوں سے مخاطب ہے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا کفار اور ان سب کا، عقیدے اور احکام کے بارے میں، حساب ہو گا۔ یعنی کفار بھی، ایمان لانے اور احکامِ شرعیہ پر عمل کرنے، دونوں کے مکلف ہیں۔
﴿ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا﴾7:158
(آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں)
یہ خطاب تمام انسانوں کے لئے عام ہے، لہذا اس میں مسلمان اور کافر دونوں شامل ہیں۔ یہاں یہ نہیں کہا جائے کہ چونکہ اس میں رسالت کے بارے میں خطاب ہے، اس لئے یہ آیت، کفار سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا مطالبہ کر رہی ہے، نہ کہ فروعی احکام کی تکلیف کا۔ یہ اس لئے کیونکہ رسالت عام ہے، جو ایمان لانے اور فروعی احکام پر عمل، دونوں کو شامل ہے۔ دوسری صورت میں اس خطاب کو ایمان کے ساتھ خاص کیا گیا ہے جبکہ تخصیص کی کوئی دلیل موجود نہیں اور یہ سراسر غلط ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے صریح خطاب سے، کفار کا فروعی احکام کا مخاطب اور مکلف ہونا ثابت ہے :
﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ ﴾2:21
(اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو)
﴿ وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ﴾3:97
(اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے)
ان فروعی احکام کے ترک پر سخت وعید و عذاب سے، ان کا حساب قرآن سے ثابت ہے :