کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 12
(اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں)
یہیں سے یہ قاعدہ اخذ کیا گیا ہے : لا حکم قبل ورود الشرع) شرع کے وارد ہونے سے پہلے کوئی حکم نہیں)
2) بندہ اس فعل کو سرانجام دینے پر قادر ہو۔
﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾2:286
(اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا)
یہ فعل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل میں کیا گیا ہو، ورنہ یہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
﴿ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ﴾4:65
(قسم ہے تیرے پروردگار کی!یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں)
4 ) وہ افعال جو حقوق اللہ کی ضمن میں آتے ہیں اور ان پر سزائیں مرتب ہوتی ہیں جیسے حدود، تو ان حقوق کو، بندے کی معافی سے، ساقط نہیں کیا جا سکتا۔
’’ أتشفع فی حد من حدود اللّٰہ ؟.....و ایم اللّٰہ لو أن فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطعت یدہا‘‘ (متفق علیہ)
(کیا تم اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں کے معاملے میں میرے سامنے سفارش لے کر آئے ہو؟....
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا)
وہ افعال جو حقوق العباد میں سے ہوں اور ان پر سزائیں مرتب کی جائیں جیسے قصاص یا دیت، تو ان میں بندے کو،
احکامِ شریعہ کے مطابق، معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ﴾2:178