کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 111
(ے شک یہ کافی تھا کہ وہ تیمم کر لیتا اور سر پر ایک کپڑا باندھ کر اس پر مسح کر لیتا اور باقی جسم کو دھو لیتا، انھوں نے پوچھا کیوں نہیں اگر)یہ) معلوم نہ تھا، بے شک بیماری کا علاج پوچھنا ہے )
ان نصوص سے مقلد کے لئے مجتہد کی تقلید کا جواز ثابت ہے۔ چونکہ وہ خود نصوص سے حکم اخذ کرنے سے قاصر ہے، اس لئے اس پر واجب ہے کہ وہ کسی مجتہد کی تقلید کرے۔ یاد رہے کہ تقلید سے مراد کسی شخص کی ذاتی تقلید نہیں بلکہ یہ حکم اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لئے ہے، تاکہ وہ اس اخذ شدہ حکمِ شرعی پر عمل کر سکے۔ اگر کسی شخص کی ذاتی طور پر تقلید کی گئی تو یہ حرام ہے کیونکہ مسلمان صرف اللہ کے حکم کی پیروی کرتا ہے نہ کسی انسان کی۔
تقلید اصل نہیں
مکلف کے لئے اصل یہ ہے کہ وہ خود اللہ کے حکم کو نصوص سے مستنبط کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے خطاب میں ایک خاص گروہ یعنی فقط مجتہدین و علماء سے مخاطب نہیں بلکہ یہ خطاب ساری انسانیت کو ہے۔ چنانچہ مکلف کے لئے تقلید اصل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ﴾17:36
(جس بات کا تجھے علم نہ ہو اس کی پیروی مت کر کیونکہ کان اور آنکھ اور دل،ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے )
تقلید چونکہ بلا دلیل کے ہوا کرتی ہے اس لئے اس سے علم و یقین کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا، یہ فقط دلیل سے ممکن ہے۔ البتہ یہ دلیل مقلد کے لئے ملزمۃ(لازمی) نہیں ہوتی، جیساکہ اجتہاد کے ذریعے مجتہد کے لئے ہوا کرتی ہے۔ پس جس نے خطاب اللہ سنا اس پر لازم ہو گیا کہ وہ اس پر ایمان لائے اور جو اس پر ایمان لایا اس پر احکام شرعیہ پر عمل کرنے کے لئے ان کو نصوص سے خود سمجھنا واجب ہو گیا۔ البتہ چونکہ اس خطاب کو صحیح سمجھنا ہر ایک کے لئے ممکن نہیں ہے اس لئے تقلید فقط عاجزی و مجبوری کی وجہ سے ناگزیر ہے۔