کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 110
تقلید کے دلائل
عقیدے میں تقلید ناجائز ہے جیسا کہ کئی آیات میں مذکور ہے، البتہ احکامِ شرعیہ میں اس کا جواز مندرجہ ذیل نصوص سے ثابت ہے :
﴿ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾21:7
(پس تم اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تمہیں خود علم نہ ہو)
یہاں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ آیت سے مراد اہلِ کتاب ہیں، تو اس کا اطلاق مسلمانوں پر کیسے ہو سکتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صحیح ہے کہ یہ آیت اہلِ کتاب کے بارے میں نازل ہوئی مگر قاعدہ ہے : العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب( لفظ کے عموم کا اعتبار ہو گا نہ شانِ نزول کی خصوصیت کا)۔ یہاں أھل الذکر کے عموم میں مسلمان بھی شامل ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ﴾16:44
(یہ ذکر(قرآن) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں )
یہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کو’’ ذکر‘‘ سے موسوم کیا ہے چنانچہ یہاں سے مسلمانوں کا ’’ اہلِ ذکر ‘‘ میں سے ہونا ثابت ہے۔ یہاں یہ نہ کہا جائے کہ آیت ایمان کے بارے وارد ہوئی ہے، تو اسے احکام کے موضوع میں کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے ؟ یہ اس لئے کیونکہ آیت کا موضوع ایمان نہیں بلکہ معرفت ہے یعنی آیت میں لاعلموں کو اہلِ علم سے پوچھنے کو کہا گیا ہے کیونکہ کلمہ فاسألوا)پوچھو) عام ہے اور اس میں احکام شرعیہ بھی شامل ہیں۔
نیز حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ہے کہ ایک شخص جنابت کی حالت میں تھا اور اس کے سر پر چوٹ تھی، غسل کے وقت اس نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ کیا اس پر کوئی رخصت ہے جس پر انھوں نے انکار کیا) یعنی اسے پورا غسل کرنا پڑے گا)۔ اس غسل کے بعد وہ ہلاک ہو گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ إنما کان یکفیہ أن یتیمم ویعصب علی رأسہ خرقۃ فیمسح علیھا ویغسل سائر جسدہ، ألا سألوا إذا لم یعلموا ؟ إنما شفاء العی السؤال ‘‘(أبو داود)