کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 11
کرتی ہے۔ پھر جب کوئی حل دیتی ہے، تو وہ انہی معلومات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ پس جب اس کی فکری افق مزید وسیع ہوتی ہے، تو یہ اپنا فیصلہ بدل کر کوئی نیا فیصلہ سنا تی ہے اور اس وقت پرانا حل غلط نظر آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان جب اپنی عقل سے افعال پر فیصلہ صادر کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ ہمیشہ عارضی ہوتا ہے اور حالات بدلنے سے اس کا فیصلہ بھی بدل جاتا ہے۔ مغرب میں قانون سازی پر ایک نظر ڈالنے سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے۔ وہاں آئے دن قوانین بدلتے ہیں جبکہ سابقہ حل غلط اور فضول نظر آتے ہیں۔ یعنی انسان افعال پر یہ اٹل فیصلہ سنانے سے قاصر ہے کہ کونسا فعل صحیح و اچھا ہے اور کونسا فعل غلط اور برا۔ اسی سے عقل کی قانون سازی میں لا اہلیت واضح ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں جب انسان کی عقل کسی فعل کو اچھے یا برے ہونے سے تعبیر کرتی ہے، تو صورتِ حالات اس کی شرح پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً جنگ کی حالت میں یا کسی شخص سے انتقام لینے کی صورت میں، عقل قتل کو اچھا سمجھ سکتی ہے، جبکہ کئی دوسرے مواقع پر یہ قتل کو برا سمجھتی ہے۔ چنانچہ کسی فعل سے، ذاتی طور پر، اس کی اچھائی یا برائی نہیں سمجھی جا سکتی، بلکہ اس پر ہمیشہ خارجی عناصر اثر انداز ہوں گے۔ یہیں سے ثابت ہوا کہ عقلِ انسانی قانون سازی کے لیے عاجز ہے اور ایک ایسی ہستی اس کام کے لیے درکار ہے، جو تمام موجودات کا احاطہ کرے اور اپنی معلومات میں کامل ہو ! ظاہر ہے کہ صرف تمام جہانوں کا رب، اللہ ہی اس کی قابلیت رکھتا ہے، کیونکہ اسی نے انسان کی تخلیق کی اور صرف یہ ہی بتا سکتا ہے کہ اس کے لیے کیا اچھا اور کیا برا ہے۔ چنانچہ فقط وہی افعال پر اٹل فیصلہ سنا سکتا ہے اور اسی لئے وہی شارع ہے۔ پس جسے شارع نے اچھا قرار دیا ہے، وہ فعل انسان کے لئے اچھا ہے اور جسے شارع نے برا قرار دیا ہے، وہ فعل انسان کے لئے برا ! محکوم فیہ بندے کے اس فعل پر، جس سے شارع کا خطاب متعلق ہے، ’’محکوم فیہ‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔ شرعی دلائل کے استقراء سے فعل کی تکلیف(legal responsibility of the act) صحیح ہونے کی مندرجہ ذیل شرائط منظرِ عام پر آتی ہیں : 1) شارع نے فعل کو بیان کیا ہو، ورنہ اس کا حساب نہیں ہو گا۔ ﴿ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا ﴾17:15