کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 108
رکھتے ہیں۔ اسے ان نصوص کو گہرائی سے سمجھنا پڑے گا تاکہ وہ کلوننگ کے حکم کا استنباط کر سکے۔ وہ معلومات جو اس موضوع سے غیر متعلقہ ہیں اس کے لئے اہم نہیں ہیں۔ اسی لئے ہر شخص محنت، پختہ ارادے اور نظم و ضبط کے ساتھ اس درجے تک پہنچ سکتا ہے۔ 2) مجتہد مذہب: یہ وہ ہے جو طریقۂ اجتہاد(اصول) میں اپنے امام کی پیروی کرتا ہے لیکن فروعات میں ان اصولوں کا پابند رہتے ہوئے خود بھی احکام مستنبط کرتا ہے۔ نیز اسے اپنے مذہب کے تمام احکام، ان کے دلائل اوران سے استنباط کی کیفیت کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ 3) مجتہد مطلق: یہ وہ ہے جو اجمالی طور پر شریعتِ اسلامی میں متعدد مسائل میں اجتہاد پر قادر ہوتا ہے اور اس نے اپنا اصول خود متعین کیا ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا اجتہاد کی شرائط مجتہد مطلق کے لئے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے یہ تمام علوم و موضوعات زبانی یاد ہوں اور نہ ہی یہ کہ وہ تمام احکام کا احاطہ کرے کیونکہ یہ بشری قوت سے باہر ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ان تمام علوم و موضوعات کا عالم ہو بلکہ اس سے فقط یہ مراد ہے کہ وہ ان سب کی رسائی کے حصول پر قادر ہو۔ چنانچہ اس درجے تک پہنچنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ یہاں یہ نہ کہا جائے کہ اجتہاد کی ایسی تبعیض(divisibility)کیسے کی جا سکتی ہے کیونکہ یا تو بندے میں اجتہاد کی اہلیت ہو یا نہ ہو۔ یہ اس لئے کیونکہ یہ تبعیض ابوابِ فقہ کے اعتبار سے نہیں بلکہ استنباط کی قدرت کے اعتبار سے ہے۔ یہ اس لئے کیونکہ مجتہد کے لئے بعض دلائل کو سمجھنا آسان ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے وہ اجتہاد کر پایا ہو جبکہ دوسرے دلائل میں پیچیدگی اور عدم وضاحت کی وجہ سے ان کو سمجھنا دشوار ہو سکتا ہے اور اجتہاد محال۔ البتہ اس وجہ سے اس کے دوسرے اجتہادات کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ مجتہد مطلق کے لئے لازم نہیں ہے کہ وہ ہر مسئلے میں اجتہاد کرے بلکہ یہ جائز ہے کہ وہ کسی اور مجتہد کی تقلید کرے، یہ امر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے ثابت ہے سکہ ان میں سے بعض، چند مسائل میں، دوسروں کی تقلید کیا کرتے