کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 107
یاد رہے کہ اجتہاد سے مراد ظنی شرعی دلائل سے استنباط ہے نہ کہ کسی حکم کی ایسے نئے مسئلہ پر تطبیق جو اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ مثلاً عورت کا مجلسِ امت کی رکن بننے کا جواز حکمِ وکالت کی اس مسئلہ پر تطبیق سے ثابت ہے۔ یہ اس لئے کیونکہ وکالت سے مراد کسی کی کسی معاملے میں نمائندگی کرنا ہے اور مجلسِ امت کی رکنیت کی حقیقت بھی عوام کی نمائندگی کرنا ہے۔ چنانچہ عورت جیسے کسی اور کو اپنا وکیل بنا سکتی ہے بالکل ویسے ہی وہ کسی اور کی وکیل بھی بن سکتی ہے، اور یہیں سے اس کا مجلسِ امت کی رکن بننے کی اباحت ثابت ہے۔ اس سلسلے کو اجتہاد نہیں کہا جاتا بلکہ یہ ’’ قضا‘‘ ہے یعنی ایک ایسا مسئلہ جس پر موجودہ حکم کی تطبیق کی گئی ہے۔ اجتہاد کی شرائط 1) عربی لغت کی معرفت۔ شرعی نصوص چونکہ عربی زبان میں وارد ہوئے ہیں اور حکم کو انہی سے مستنبط کیا جاتا ہے، اس لئے یہ ظاہر بات ہے کہ عربی کی اس حد تک مہارت حاصل ہونی چاہیے کہ خطاب کو اچھی طرح اور ہر پہلو سے سمجھا جا سکے۔ یعنی خطاب میں الفاظ کے لغوی معانی، اسالیبِ کلام، صرف و نحو کے قواعد، خاص و عام، مطلق و مقید، بیان و مبین، مجمل و مفصل، حقیقت و مجاز، امر و نہی، ناسخ و منسوخ، حروف و الفاظ کی اقسام، اجناسِ کلام، دلالاتِ الفاظ وغیرہ۔ 2) شرعی علوم کی معرفت۔ یعنی دلائل، حکمِ شرعی اور اس کی اقسام، قیاس و علت، جمع و ترجیح کے قواعد، علمِ جرح و تعدیل، اسبابِ نزول، سنت اور اس کے انواع کی معرفت وغیرہ۔ مجتہد کی اقسام مجتہد کی تین اقسام ہیں : مجتہد مسئلہ، مجتہد مذہب اور مجتہد مطلق۔ 1) مجتہد مسئلہ: یہ وہ ہے جس نے چند ایک مسائل میں اجتہاد کیا ہو۔ اس کے لئے فقط مسئلہ)واقع) اور اس سے متعلقہ لغوی اور شرعی معلومات کی معرفت ضروری ہے۔ مثلاً اگر اس نے کلوننگ(cloning) کے موضوع پر اجتہاد کرنا ہے تو اسے پہلے اس کی حقیقت کو گہرائی سے سمجھنا پڑے گا اور پھر ان نصوص کی طرف رجوع کرنا ہو گا جو اس مسئلے سے تعلق