کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 106
اجتہاد کے دلائل
اجتہاد فرضِ کفایہ ہے کیونکہ اس کے بغیر زندگی کے معاملات کے بارے میں اللہ کا حکم معلوم نہیں ہو سکتا اور یہ جانے بغیر اس پر عمل محال ہے۔ چنانچہ یہ امر ناجائز ہے کہ کسی واقع کا صدور ہو اور اس کا حکمِ شرعی نہ معلوم ہونے کی وجہ سے اس پر عمل نہ ہو سکے، کیونکہ مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام افعال شرع کے مطابق انجا م دے۔ لہذا زندگی میں جدید مسائل کے شرعی احکام کے استنباط کے لئے ہر دور میں مجتہدین کا ہونا ضروری ہے۔ اجتہاد کے دلائل :
’’ قولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم لمعاذ حینما بعثہ قاضیا إلی الیمن : بم تحکم ؟ قال: بکتاب اللّٰہ۔ قال: فإن لم تجد؟ قال: بسنۃ رسول اللّٰہ۔ قال: فإن لم تجد؟ قال: أجتھد رأیی ولا آلو۔ فقال صلی اللّٰه علیہ وسلم : الحمد للّٰہ الذی وفق رسول رسول اللّٰہ لما یرضی اللّٰہ ورسولہ ‘‘(أبو داود)
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن میں قاضی بنا کر بھیجا تو پوچھا : کس چیز کے طابق لوگوں کے مابین فیصلہ کرو گے ؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی کتاب کے مطابق۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اگر اس میں نہ ملے تو ؟ فرمایا : رسول اللہ کی سنت کے مطابق۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اگر اس میں نہ ملے تو ؟ فرمایا : تو میں اپنے اجتہاد کے مطابق فیصلہ کروں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تعریف اس اللہ کی جس نے اللہ کے رسول کے پیامبر کو ایسی ہدایت دی جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی ہوا)
’’ إذا اجتھد الحاکم فأخطأ فلہ أجر و إن أصاب فلہ أجران ‘‘(متفق علیہ)
(ب حاکم کے اجتہاد میں غلطی ہو تو اسے ایک ثواب ملے گا اور اگر اس کا اجتہاد صحیح ہو تو اسے دو ثواب ملیں گے )
علاوہ ازیں اجتہاد پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی اجماع ہے کیونکہ وہ خود کثرت سے اجتہاد کیا کرتے تھے۔