کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 104
﴿ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ ﴾65:6
(ور اگر وہ حمل سے ہوں تو انہیں خرچ دیتے رہا کرو)
یہاں مفہومِ مخالفہ سے یہ سمجھا گیا ہے کہ اگر مطلقہ حاملہ نہیں، تو اس کا نان و نفقہ مرد پر فرض نہیں ہے۔
پھر مفہومِ مخالفہ پر عمل کی شرطیں یہ ہیں کہ وہ کسی صریح نص کے خلاف نہ ہو یا نزولِ اسلام کے دور میں آیت یا حدیث میں مذکور واقع بطورِ رواج عام نہ ہو) مخرج الأعم الأغلب)۔
مثال :
﴿تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً﴾3:130
(بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ)
یہاں پر مذکور مثال أضعافا مضاعفۃ(بڑھا چڑھا کر) واقعے کی رعایت کے طور پر ہے یعنی سود کی اس وقت جو صورتِ حال تھی، اس کا بیان و اظہار ہے۔ چنانچہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر بڑھا چڑھا کر سود نہ لیا جائے تو یہ جائز ہو گا۔ نیز یہ مطلب اس صریح نص کے بھی خلاف ہے جس میں سود کو مطلقاً حرام قرار دیا گیا ہے :
﴿ وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾2:275
(اور اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام)
یعنی اس معاملے میں مفہومِ مخالفہ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس کے باوجود آج سرمایہ دارانہ نظام کے مسلمانوں پر نفاذ اور اس کے غلبے و دباؤ کی وجہ سے، بعض مفتیوں نے یہ فتویٰ جاری کیا ہے کہ دورِ حاضر میں تھوڑے سود لینے دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے صراحتاً ممنوع قرار دیا ہے۔(معاذ اللہ)