کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 102
مفہومِ مخالفہ
مفہومِ مخالفہ کی تعریف
ھو ما یکون مدلول اللفظ فی محل السکوت مخالفا لمدلولہ فی محل النطق
(محلِ سکوت میں وہ مدلولِ لفظ جو تلفظ میں اپنے مدلول کے مخالف ہو)۔ اسے ’’ دلیلِ خطاب ‘‘ سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔
مفہومِ مخالفہ پر عمل تب لازمی ہے جب خطاب میں ان چار امور میں سے ایک موجود ہونے کی کوئی دلیل ہو: صفت، عدد، غایت یا شرط۔ اگر ان میں سے کوئی نہ پایا گیا ہو تو مفہومِ مخالفہ پر عمل صحیح نہ ہو گا، مثلاً اسم، خواہ وہ اسمِ جنس ہو یا اسمِ علم یا جو کچھ اس کا ہم معنی ہے جیسے لقب یا کنیت، یا پھر وہ اسمِ جامد ہو یا مشتقِ غیر وصف، ان تمام صورتوں میں مفہومِ مخالفہ نہیں لیا جائے گا۔
1) صفت : یہاں صفت سے مراد’’ وصفِ مفہم مناسب‘‘ ہے جس کا ذکر علت کے باب میں گزرا ہے۔ یہ اس لئے کیونکہ حکم)معلول) اپنی علت کے گرد گھومتا ہے یعنی اپنے عدم اور وجود میں۔ چنانچہ وصفِ مفہم مناسب کا تعلیل کے لئے استعمال مفہومِ مخالفہ کے عمل پر دلالت کرتا ہے۔
مثال:
﴿ إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا﴾49:6
(اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو)
یہاں فاسق حکم کے لئے وصفِ مفہم مناسب ہے، چنانچہ مفہومِ مخالفہ سے یہ سمجھا گیا ہے کہ کسی ’’ عادل‘‘ کی خبر کی تحقیق واجب نہیں ہے۔ پس جب کوئی عادل شخص کوئی خبر لائے تو اسے قبول کیا جائے گا۔