کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 10
باب اوّل: حاکم
اسلام میں حکم دینے یعنی تشریع کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ اس لیے وہی شارع ہے اور اسی سے حکم اختراع (originate) ہوتا ہے۔ چنانچہ الحاکم ہونا اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے جس میں کوئی اور شریک نہیں ہو سکتا۔ اس کی حاکمیت میں شریک ہونے کا دعویٰ، اس کی ربوبیت میں شراکت کے دعوے ٰ کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان ہیں :
﴿ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ﴾ 6:57
(حکم تو صرف اللہ ہی کے لیے ہے)
﴿ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ﴾7:54
(یاد رکھو ! اسی(اللہ) کے لیے ہے خاص خالق ہونا اور حاکم ہونا)
مغربی قانونی فلسفہ، جو عقل کو قانون سازی کا منبع گردانتا ہے، اسلام کے مذکورہ اصول کے متضاد ہے۔ مغربی فلسفے میں عقل کو ہی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اچھے اور برے کا فیصلہ کرے اور اس امر میں کسی خارجی عنصر کی مداخلت، مثلاً وحی، ناقابلِ برداشت ہے۔ دوسرے لفظوں میں عقل ہی حاکم ہے اور یہی واقعات پر اپنا اٹل فیصلہ سناتی ہے۔ جبکہ اسلام میں عقل کا کردار شرعی نصوص سے، بندے کے افعال سے متعلق شارع کے خطاب کو، سمجھنے تک محدود ہے۔ عقل اس سمجھنے کے سلسلے میں اپنا کوئی خود مختار فیصلہ نہیں دے سکتی بلکہ یہ صرف نصوص میں مقید ہے۔ پس جس بات پر یہ دلالت کریں یا جس طرف اشارہ، عقل اسی حد تک جائے گی اور اس سے تجاوز نہیں کر سکتی، یعنی یہ نصوص کی عقلی تاویل سے باز رہے گی!
انسان کے افعال پر گہری نظر ڈالنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عقل ان پر اٹل فیصلہ نہیں دے سکتی۔ اس کی پہلی وجہ یہ کہ عقل محدود ہے کیونکہ ہر روز اس کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے یہ نئے نئے انکشاف