کتاب: توحید کا نور اور شرک کی تاریکیاں - صفحہ 75
رحمت سے دوری اور جہنم میں ہمیشہ ہمیش کی زندگی کا مستحق ہوگا۔ یہ خطرناک احکام اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ جوشخص مسلمانوں میں سے کسی پر کفر کا حکم لگانا چا ہتاہو وہ حکم لگانے سے پہلے بارہا خوب غور وفکر کرلے۔[1] ۷- اس شخص کے لئے نہ دعا ئے رحمت کی جائے گی اور نہ ہی استغفار کیا جائے گا، کیونکہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾[2] نبی اور دوسرے مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگر چہ وہ رشتہ دار ہی ہوں ‘ اس امر کے ظاہر
[1] دیکھئے: فتاویٰ دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات، ۶/۴۹، میں نے یہ تمام مسائل عالی جناب شیخ صالح فوزان الفوزن حفظہ اللہ کو مورخہ ۲۰/۶/۱۴۱۷ھ کو سنائے، تو انہوں نے موافقت فرمائی‘ اللہ انہیں جزائے خیر سے نوازے۔ [2] سورۃ التوبہ:۱۱۳۔