کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 99
بنا دیئے گئے تھے۔لوگ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے دست کش ہو کر ملحدانہ و باغیانہ سرگرمیوں میں ملوّث ہوچکے تھے۔مسجدیں ویران اور مزارآباد تھے۔ان پر قیمتی زردارکپڑے اور پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی تھیں۔اور تُرکی استعمار کی وجہ سے انار کی اور قبائلی تعصّب شباب پر تھے۔ آغازِ دعوت یہی وہ حالات ہیں جن میں کسی مجدّد کی ضرورت پیش آتی ہے۔ایک حدیث ہے: ((اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لِھٰذِہٖ الْاُمَّۃِ اَمْرَدِیْنِھَا))(ابو داؤد کتاب الملاحم:مستدرک حاکم) ’’ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر صدی میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرماتا رہے گا جو اس اُمت کے لیے اسکے دین میں تجدیدی امور سرانجام دے گا۔‘‘ لہٰذا اللہ پاک نے تجدید واصلاح ِ اُمت کے لیے الشیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کو منتخب فرمایا جو شمشیرِ عزم لیے طاغوتی طاقتوں اور ابلیسی سازشوں کے تار وپود بکھیرنے لگے۔اصلاح کے کام میں انتہائی حکمت ِعملی سے کام لیا۔کبھی لوگوں کو حُسن ِ سلوک اور دلائل وبراہین سے قائل کیا اور کبھی بوقت ِ ضرورت طاقت ِ شمشیر وسناں سے عقیدۂ صافیہ کی طرف مائل کیا۔ دعوتِ توحید کا آغاز حُریملاء سے کیا۔بدعقیدہ لوگ درپے آزار اور دشمنِ جان لیوا ہوگئے۔مگر آپ نے پورے عزم واستقامت سے ہر دشوارگزار گھاٹی کوسَر کیا اور دعوت جاری رکھی۔۱۱۵۳ ؁ھ میں والد ِ محترم انتقال فرماگئے۔اور شیخ اپنے آبائی وطن العُیینہ چلے گئے۔شروع شروع میں امیر شہر عثمان بن حمد بن معمر نے بڑا ساتھ دیا لیکن پھر بعض سیاسی وجوہات کی بناء پر دشمن ہوگیا۔وہاں سے شیخ درعیہ(حجاز)چلے گئے۔