کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 98
دلچسپی تھی۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور ابن ِقیم رحمہما اللہ کی کُتب کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ سفر ِ حج و تعلیم: حج ِ بیت اللہ کا فریضہ ادا کرنے کے لیے مکّہ مکرّمہ روانہ ہوگئے۔وہاں سے مدینہ منورہ کا رُخ کیا اور عالم ِ شہیرالشیخ عبداللہ بن ابراہیم آلِ سیف کی مصاحبت سے استفادہ کیا۔ان سے صحیح بخاری ومسلم،دونوں کی شرحیں،ترمذی،نسائی‘ابوداؤد،ابن ِ ماجہ،مسند امام شافعی،مؤطا امام مالک،اور مسند احمد میں اجازت حاصل کی اور عظیم محدِّث الشیخ محمد حیاۃ السندیؒ سے عقیدۂ صافیہ کی تعلیمات حاصل کیں۔ان کے علاوہ الشیخ علی آفندی الداغستانی‘ الشیخ اسماعیل العجلونی‘الشیخ عبدالطیف العفالقی الاحسائی اور الشیخ محمد العفالقی الاحسائی سے مستفید ہوئے۔پھر بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے تا کہ وہاں کے مشائخ سے بھی کسب ِ فیض کر سکیں۔لہٰذا حدیث،نحو اور لغت میں الشیخ محمد المجموعی سے مستفیض ہوئے۔اسی قیام کے دوران اہم مباحث پر قلم اٹھایا اور کئی کتابیں لکھیں۔وہاں سے الزبیر‘بغداد اور شام کا سفر کرتے ہوئے الاحساء پہنچے اور وہاں کے الشیخ عبداللہ بن عبداللطیف الشافعی سے کسب ِ علم کے بعد نجد کے گاؤں حریملاء چلے گئے کیونکہ آپ کے والدِ ماجد وہاں منتقل ہوچکے تھے۔ نجد وحجاز،دعوت سے قبل وہ تمام دینی‘ اخلاقی‘معاشرتی‘معاشی اور سیاسی بیماریاں بارہویں صدی میں نجد پر مسلّط ہوچکی تھیں جو بارہ سو سال قبل زمانۂ جاہلیت میں پائی جاتی تھیں اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے۔شرک،بدعات وخرافات اور تو ہّم پرستی کا دور دورہ تھا۔قبروں‘درختوں اور چٹانوں کے نام جانور ذبح کیئے جاتے‘ان سے مرادیں مانگی جاتیں اور عراّف‘رَمّال‘منجِّم اور کاہن وجادوگرعالم الغیب