کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 86
قبروں کو پُختہ کرنااور مجاوربن کر بیٹھنا یہ بدعت اورنمود ونمائش ہے۔اور دنیاداری ووصغداری بھی۔مالی فرق ِمراتب کے لحاظ سے کچھ لوگ تو صرف قبر ہی کو پختہ کردینے کی سکت رکھتے ہیں،وہ اسی پر اکتفاء کرلیتے ہیں اور جن کو اللہ نے دولت کا خزانہ عطا کررکھا ہے،ان کا علماء ِسُوء اورپیری فقیری کی لائین سے مس ہونے کا نتیجہ اس شکل میں نکلتا ہے کہ جب ان کا کوئی عزیز دارِ فنا ء سے دار ِ بقا ء کی طرف منتقل ہوجائے تو انھیں دولت کے اظہار کا بے جا مصرف مِل جاتا ہے۔وہ خطیر رقمیں لگا کر قبر پر دیدہ زیب عمارت تعمیر کرتے ہیں،پھر اسے رنگا رنگ سنگ مرمر،بوقلموں موزائیگ‘قیمتی ٹائل‘ پینٹس اور فانوس وقندیل سے ڈیکوریٹ کیا جاتا ہے۔گویا کھاتے پیتے گھرانوں کے مُردے بھی ایسی پُرشکوہ اور دلکش جگہوں پر رہتے ہیں،جیسی کروڑہا زندوں کو بھی نصیب نہیں ہوتیں۔ کاش یہ لوگ ساتھ ہی بسنے والے غرباء‘فقراء اور مساکین کی طرف نظرکریں کہ وہ کیسی تنگدستی کی زندگی بسر کر رہے ہیں،گرمی وسردی کے موسم میں کُھلے آسمان کے نیچے جُھلس اور ٹھٹھر رہے ہیں یا بوسیدہ جھونپڑیوں میں سَر چُھپائے بیٹھے ہیں۔اگربن پڑے اور دولت اتنی ہی بے قابو ہوجائے تو اُن کے مسائل پر غور وفکر کریں۔جو فرض وثواب،مذہب وسماج اور معاشرت واخلاق سب کچھ ہے۔چہ جائیکہ ان لوگوں پر خرچ کریں جن کا اس جہان ِ فانی سے رشتہ منقطع ہوچکا ہے اور وہ ان لمبے چوڑے اخراجات سے بننے والے مزاروں اور گنبدوں سے مستغنی ہوگئے ہیں۔پھر اس کی کوئی تھوڑی بہت ہی اسلامی اور شرعی گنجائش ہو تو بھی سوچا جاسکتا ہے کہ چلو امتثال ِ امر پر ثواب ہوگا۔اور دنیا میں ’’ناک‘‘ بھی سلامت رہے گی۔مگر ایسا بھی نہیں کیونکہ شرعاً یہ فعل مکروہ ہے،ممنوع ہے،بلکہ حَرام ہے۔