کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 84
مَقابر پر بِدعات جس طرح مرگ پر بہت سی بدعات ہمارا معمول ہیں،اُسی طرح مقابر پر بھی انواع واقسام کا شرک اور لاتعداد بدعات زیرِ عمل ہیں۔مثلاً قبروں پرکتبے لگانا،تاریخیں لکھنا،قبروں کو چونے،گارے،اینٹ،مٹی اور سیمنٹ سے پختہ کرنا،قبروں پر مسجدیں،قُبے اور گنبد تعمیر کرنا،غلاف اور چادریں چڑھانا،چراغاں کرنا،منّتیں ماننا،چڑھاوے پکانا،دوردراز سے قصدکرکے مزاروں پر حاضری دینا،صاحب ِ قبر کو وسیلہ بنانا،قبروں پر اعتکاف کرنا،ان کا طواف کرنا،سجدے کرنا،میلے وعُرس کرنا اور ان سے مشکل کشائی کی اپیلیں کرنا وغیرہ۔ تو آیئے ان امور کا بھی قرآن وسنّت،اسلافِ امت اور علماء کی تعلیمات سے موازنہ کریں اور دیکھیں کہ ان کی کوئی شرعی حیثیت بھی ہے یا یہ صرف سلطانی وپیری وملّائی کے شاخسانے ہیں۔کیونکہ بقول حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ۔؎ لَقَدْ اَفْسَدَالدِّیْنَ مُلُوْکٌ وَاَحْبَارُسُوْئٍ وَرُھْبَان‘ ’’اصل دین کو بے علم بادشاہوں کی پُشت پناہی‘پیروں کی ہوس ِ گدی نشینی اور ملّاؤں کی حرص وہویٰ نے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔‘‘ قبروں پر میلے لگانے اور عُرس کرنے کے متعلق توگزشتہ صفحات کی وضاحت پر ہی اکتفاء کرتے ہیں کہ’’عاقل رااشارہ کا فی است‘‘ اور دوردراز سے مزاروں پر آکر صاحب ِ مزار کوبظاہر’’وسیلہ‘‘ ٹھہراتے ہوئے ان سے مشکل کُشائی اور رفع ِحاجات کی درخواست کرنا اور دوسری اقسامِ شرک کے بارے میں شیخ محمد بن سلیمان التمیمی رحمہ اللہ نے کشف الشبہات کے متن میں مدلّل بیان کردیا ہے۔ قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنے،اعتکاف کرنے،اُن کاطواف کرنے،اُن پرسجدے کرنے اور وہاں نمازیں پڑھنے کے متعلق حضرت ابومرثدغنوی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی