کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 83
کے متعلق لکھتے ہیں: (اَلْاِجْتِمَاعُ لِلْقِرآئَ ۃِ بِالْقُرْآنِ عَلَی الْمَیِّتِ بِالتَّخْصِیْصِ عَلٰی الْمَقْبَرَۃِ اَوِالْمَسْجِدِ اَوِالْبَیْتِ بِدْعَۃٌ مَذَمُوْمَۃٌ لِاَنَّہ‘ لَمْ یُنْقَلْ مِنَ الصَّحَابَۃِ شَیْئاً)(رَدّ البدعات) ’’بالخصوص میّت پر قرآن خوانی کے لیے قبر،مسجد یا گھر پر اجتماع کرنامذموم بدعت ہے،کیونکہ اس کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کچھ منقول نہیں۔‘‘ 5۔................................. علّامہ مجد الدین فیروزآبادی رحمہ اللہ صاحبُ القاموس المحیط لکھتے ہیں: (عادت نبودکہ برائے میّت جمع شوند،قرآن خوانندوختمات کنند نہ برگور ونہ غیرِآں مکان،وایں بدعت است ومکروہ)(سفر السعادت) ترجمہ:’’اسلاف میں میّت کے لیے قبر پر یا کسی بھی دوسری جگہ جمع ہوکر قرآن پڑھنے اور ختم کہنے کا کوئی رواج نہ تھا۔یہ بدعت اور مکروہ ہے۔‘‘ ایسے ہی ’’اہل ِسنّت والجماعت’’کی دیگر کتابوں مثلاً صغیری،کبیری‘عینی،شرح ہدایہ،مصفی،خلاصہ،ردالمحتار،ردالبدعات علّامہ آفندی اور جامع الروایات وغیرہ میں بھی ان رسومات کو بدعت ومکروہ قراردیا گیا ہے۔ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ؟