کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 79
اس اثر پر پہلی نظر ڈالتے ہی معلوم ہوجاتاہے کہ یہ روایت حضرت ابن ِمسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف اور انکا اپنا قول ہے،اور کتاب السنۃ للامام احمد،البزار،الطیالسی،معجم الطبرانی،الحلیہ ابونعیم اور بیہقی وغیرہ تمام کتابوں میں موجود ہے۔ ثانیاً: اس روایت میں مذکور مسلمانوں سے مراد ہمارے حلوہ خور ملّا نہیں بلکہ سیاقِ روایت بتارہا ہے کہ ان سے قدسی نفوس صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین مراد ہیں جن کے متعلق خود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (کَانُوْ اَفْضَلُ ھٰذِۃٖ الْاُمَّۃِ وَ اَبَرُّھَا قُلُوْباً وَاَعْمَقُھَا عِلْماً وَاَقَلُّھَا تَکَلُّفاً اِخْتَارَ ُھمْ اللّٰہُ لِصُحْبَۃِ نَبِیِّہٖ وَلِاقَامَۃِ دِیْنِہٖ) (کتبِ مذکورہ بحوالہ مشکوٰۃ۔کتاب العلم) ’’وہ اس اُمت کے افضل ترین،دل کے نیک ترین،علم میں عمیق ترین اورسب سے تھوڑی کرید اور تکّلف کرنے والے تھے۔اللہ نے انہیں صحبت ِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)اور اقامت ِ دین کے لیے منتخب فرمایا۔‘‘ ثالِثاً: جس روایت سے مغالطہ دیا جاتا ہے اس میں اَلْمُسْلِمُوَْنَ کا الف‘ لام استغراق کے لیے ہے۔اور استغراق کا اطلاق اجماع ِ امت پر ہوتا ہے۔نہ کہ صرف حلوہ خوروں کے ایک طبقہ کے لوگوں پر۔اور اگر اس ال کو جنس کے لیے مان لیا جائے تو بھی اس قول سے بدعات کو ثابت کرنا درست نہ ہوا کیونکہ کچھ لوگ اچھا سمجھتے ہیں تو بہت سے اسے غلط مانتے ہیں۔چنانچہ حضرت جریر بن عبداللہ البَجَلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ((کُنَّا نَعُدُّالاِْجْتَمَاعَ اِلٰی اَھْلِ الْمَیِّتِ وَصُنْعَۃَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِہٖ مِنَ النِّیَاحَۃِ))(ابن ماجہ،مسند احمد) ’’تدفین کے بعد ورثاء کے ہاں اجتماع کرنے اور کھانا تیار کرنے کو ہم نوحہ وبَین شمارکرتے تھے۔‘‘