کتاب: توحید باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ - صفحہ 70
حاشیۃ الاشباہ للحموی میں اس نماز کے متعلق لکھا ہے: ((قَدْ حَدَثَتْ بَعْدَ اَرْبَعِ مِائَۃٍ وَّ ثَمَانِیْنَ مِنَ الْھِجْرَۃِ،قَدْ صَنَّفَ الْعُلَمَائُ کُتُباً فِیْ اِنْکَارِھَا وَذَمِّھَا وَتَسْفِیْہِ فَاعِلِھَاوَلَا یُغْتَرَّ بِکَثْرَۃِ الْفَاعِلِیْنَ لَھَا فِیْ کَثِیْرٍمِّنَ الْاَمْصَارِ))(درالمختار،جلد ۱ ص ۵۴۴) ’’یہ ۴۸۰ ؁ھ کے بعد مروّج ہوئی،علماء کرام نے اس کے انکار،مذمت اور اسکے ادا کرنے والوں کے احمق پن پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔بہت سے شہروں میں یہ نماز ادا کرنے والوں کی کثرت کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھایا جائے۔‘‘ [1] 4۔مِیلَاد ِ مُروِّجہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عیدِ میلاد ہر سال بڑے جوش وخروش سے منائی جاتی ہے۔محافلِ ِذکر بپا کی جاتی ہیں۔سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔اور جلوس نکالے جاتے ہیں۔قوالیوں کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ اس پر ایک میلہ کا گمان ہوتا ہے۔یہ سب کچھ جس ذات کی عقیدت واحترام کے لیے ہوتا ہے۔وہ بلاشبہ خیرالوریٰ اور امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔مگر کیا ایسا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا؟خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے کیا ؟یا انھوں نے اس کے متعلق کوئی حکم دیا؟ جبکہ وہ صحیح معنوں میں محبّان ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔[2]
[1] ’’ بدعات ِ رجب وشعبان‘‘کے نام سے ہمارے آٹھ ریڈیو پرگرام جو سعودی ریڈیو مکّہ مکرمہ سے(۱۴۳۲ ؁ھ،۲۰۰۲ ؁ء میں) نشر ہوئے تھے،وہ کتابی شکل میں شائع ہونے کیلئے تیار ہیں۔ اس کتاب میں اس بدعت کا تفصیلی ردّموجود ہے۔(ابوعدنان) [2] عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے محبّان ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ ہم نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے، کیونکہ لفطِ عشق قرآنِ کریم اور کسی صحیح حدیث میں وارد نہیں ہوا۔(ابوعدنان)